Maktaba Wahhabi

77 - 379
ہونے کا ہے۔ اسی بات کی طرف اشارہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ملتا ہے: ’’سنت کے مطابق عمل میں (کثرت کے بجائے) میانہ روی، بدعتی عمل میں زیادہ کوشش کرنے سے بہت بہتر ہے۔‘‘ مذکورہ واقعے میں دیکھ لیجیے کہ لوگ بیٹھے ہوئے اللہ کا ذکر ہی کر رہے تھے جو نہایت فضیلت والا عمل ہے، نیز ان کی نیت بھی یقینا صحیح ہی تھی، یعنی ذکر الٰہی کرنا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر اول وہلے میں امر خیر ہی سمجھا لیکن اپنی قطعی رائے دینے سے گریز کیا، پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا اوراسے خلاف سنت قرار دیا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا اورحضرت ابن مسعود سے اتفاق کیا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے منکر اورخلاف سنت کیوں قرار دیا؟ صرف اس مخصوص کیفیت و ہیئت کی وجہ سے جو ذکر کرنے کے لیے انھوں نے اپنی طرف سے اختیار کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ کیفیت ثابت نہیں تھی، ورنہ ذکرِ الٰہی کی مشروعیت بلکہ فضیلت سے تو ان کو انکار نہیں تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور کے اس ایک واقعے ہی سے سنت و بدعت اور مشروعیت وغیر مشروعیت کی حقیقت کو نہایت آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے بشرطیکہ کوئی فہم صحیح اور قلب سلیم سے بہرہ ور ہو۔ بقول علامہ اقبال: ’’سمجھ‘‘ میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور کی چند اور مثالیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا:
Flag Counter