Maktaba Wahhabi

335 - 379
اس روایت کی بنا پر بہت سے لوگ شعبان کی پندرہ تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں لیکن محدثین کے نزدیک یہ روایت پایۂ اعتبار سے بالکل ساقط ہے، اس میں ایک راوی ابوبکر بن ابی بسرہ ہے جو متہم بالکذب ہے، وہ موضوع حدیثیں بنایا کرتا تھا، اس لیے یہ روایت قطعاً قابل حجت نہیں، لہٰذا پندرہ شعبان کا روزہ بھی ثابت نہیں۔ البتہ صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے ایام بیِض (13،14، 15تاریخ) کے روزے رکھتے تھے۔ اس حدیث کی رو سے اگر کوئی شخص شعبان کے مہینے میں یہ تین روزے رکھ لے تو یہ سنت کے مطابق کام ہوگا، اس لیے روزہ رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ صرف15شعبان کا ایک روزہ نہ رکھیں بلکہ تین روزے رکھیں، 13،14،15شعبان کا۔ اور ان روزوں کو بھی شعبان کے ساتھ خاص نہ کیا جائے۔ حلوے مانڈے، آتش بازی اور غلط عقیدے شعبان کی پندرھویں رات کو اور بھی بعض کام ایسے کیے جاتے ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں، جیسے حلوے مانڈوں کا خصوصی اہتمام۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس روز مُردوں کی روحیں آتی ہیں، حالانکہ یہ عقیدہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ اگر دنیا سے جانے والے اللہ کے نافرمان ہیں تو وہ اللہ کے ہاں قیدی ہیں، وہ اللہ کی قید سے نکل کر آہی نہیں سکتے۔ اوراگر وہ نیک تھے تو وہ اللہ کے ہاں مہمان ہیں اوراللہ نے ان کے لیے جنت میں بہترین نعمتیں تیار کررکھی ہیں، وہ جنت کی اعلیٰ اور لذیذ ترین نعمتیں چھوڑ کر دنیا میں کس طرح آئیں گے؟ یعنی کسی لحاظ سے بھی روحیں دنیا میں نہیں آسکتیں۔ اسی طرح اس رات کو چراغاں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور خوب آتش بازی کی جاتی ہے، حالانکہ یہ بھی مشرک قوموں کا شعار ہے۔ مجوسیوں (آتش پرستوں) میں یہ
Flag Counter