Maktaba Wahhabi

54 - 379
یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں تو یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور ان میں انھی کا رویہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ بات بلاشبہ صحیح ہے۔ لیکن یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلمہ ہے کہ شان نزول کے خاص سبب کا اعتبار نہیں، اصل چیز وہ حکم ہے جو اس سے ثابت ہوتا ہے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے اس کا اثبات ہو گا بشرطیکہ ان کے اندر بھی وہی چیزیں ہوں جو شانِ نزول کا سبب بننے والے لوگوں کے اندر تھیں۔ اس اعتبار سے اہلِ تقلید کارویہ بھی قرآن و حدیث کے معاملے میں ان سے مختلف نہیں ہے جو عہد رسالت کے منافقین کامذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ بنابریں اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ وہ بھی اپنے تقلیدی رویے کی وجہ سے ان آیات کامصداق قرار پا جائیں جو اگرچہ نازل منافقین کے بارے میں ہوئی تھیں، اس لیے کہ اَلْعِبْرَۃُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لَا بِخُصُوصِ السَّبَبِ اس کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب ’’عظمتِ حدیث‘‘ مطبوعہ دارالسلام۔ اس پہلو سے بھی امت مسلمہ کی اکثریت کو برسر حق تسلیم کرنا نہایت مشکل ہے۔ (5)اہل حق ہمیشہ تھوڑے ہی رہے ہیں مذکورہ چار نکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس حقیقت کو ماننے میں تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اہل حق ہمیشہ ہر دور میں کم ہی رہے ہیں اور اکثریت اہل باطل ہی کی رہی ہے، اس لیے حق کا معیار اکثریت یا اقلیت نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ہیں جو سچے دل سے ان کو مانے گا اور ان پر عمل کرے گا، وہی برسر حق ہو گا، وہ کوئی فرد ہو یاجماعت، وہ تھوڑے ہوں یا زیادہ۔ لیکن واقعہ یہی ہے کہ اہل حق ہمیشہ قلیل ہی رہے ہیں۔
Flag Counter