علاوہ ازیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں بھی اس امر کی صراحت موجود ہے کہ عاشوراء سے مراد دس محرم ہے:
’أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم بِصَوْمِ عَاشُورَائَ یَوْمَ الْعَاشِرِ‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، یعنی دس محرم کا۔‘‘[1]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اس مرفوع حدیث سے یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ عاشوراء، نو محرم کا نہیں، 10 محرم کا دن ہے۔ اور اس حدیث کے راوی بھی حضرت ابن عباس ہی ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نو محرم کو عاشوراء قرار دیں؟ اسی لیے امام ترمذی اس حدیث کے درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’وَقَدِ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي یَوْمِ عَاشُورَائَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ: یَوْمُ التَّاسِعِ، وَقَالَ بَعْضُھُمْ: یَوْمُ الْعَاشِرِ وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ قَالَ: صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْیَہُودَ‘
’’اہل علم نے اس امر میں اختلاف کیا ہے کہ عاشوراء کون سا دن ہے؟ بعض نے کہا ہے کہ یہ نو محرم ہے اور بعض نے کہا: دس محرم ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انھوں نے کہا: نو اور دس محرم کاروزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔‘‘
اس لیے صرف 9 محرم کے روزے کو مسنون عمل کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہو سکتا، صحیح بات (ان شاء اللہ) یہی ہے کہ نو اور دس محرم کا روزہ رکھا جائے، لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ کا یہی مطلب بنے گا نہ کہ صرف 9 محرم کا روزہ رکھنا۔ واللّٰہ أعلم ۔
|