Maktaba Wahhabi

84 - 190
کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ﴾ (الدخان:۳۷) ’’کیا یہ (قریش ) بہتر حالت میں ہیں یا قومِ تبع، اور وہ لوگ جوان سے پہلے گزرے،ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، بے شک وہ نافرمان تھے۔‘‘ ان کی شان وشوکت خاک میں مل گئی،عرب مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ حمیری ملوک وہ ہیں جو صرف یمن کے حکمران تھے اور جن کی حکمرانی یمن اور حضرموت دونوں پر تھی، انھیں تبع یا تبابعہ کہا جاتا ہے۔سب سے پہلے’’تبع ‘‘بادشاہ کا نام’’الحارث الرائش‘‘ تھا۔ اور تُبَّع کی وجۂ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک بادشاہ یمن کا ہوتا تھا اور ایک حضرموت کا، تمام یمنی ایک بادشاہ پر متفق نہ تھے، جب حارث الرائش بادشاہ بنا تو دونوں اس پر متفق ہو گئے اس کی تبعیت کی بنا پر اس کا لقب’’تبع‘‘ ہو گیا۔’’تبع‘‘ عربی لفظ ہے تو اس کے معنی’’متبوع‘‘ کے ہیں، جس کی پیروی اور اطاعت کی گئی ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی قادر، جبار اور صاحبِ قوت کے ہیں۔ عام مؤرخین کا خیال ہے کہ تین تبع ہو گزرے ہیں، تبع اکبر کا نام الحارث الرائش تھا۔ تبعِ اوسط کا نام اسعد ابو کرب تھا اور تبع اصغر کا نام حسان تھا۔ تاریخِ ارضِ قرآن میں اس کا نام تبع بن حسان ہے جو محلِ نظر ہے۔ اسعد ابوکرب جس کا دور ۴۰۰ء سے ۴۲۵ء بتایا گیا ہے،یثرب یعنی مدینۂ طیبہ آیا ،مگر علامہ السھیلی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی آمد قبلِ اسلام سات سوسال ذکر کی ہے،وہ یہاں یثرب کو تاراج اور یہودیوں کو قتل کرنا چاہتا تھا ،مگر اسے ایک یہودی عالم نے اس اقدام سے منع کیا اور کہا کہ یہ شہرایک نبی کی ہجرت گاہ ہے ،جو دینِ ابراہیمی کو زندہ کرے گا، تو وہ اپنے ارادہ سے باز آگیا۔ کہتے ہیں کہ اس تبع نے سب سے پہلے بیت اللہ پر غلاف چڑھایا ،بلکہ اس کا ذکر ایک حدیث میں بھی بیان ہوا ہے۔ یہ اسعد تبع دینِ ابراہیمی کے مطابق مسلمان تھا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برا کہنے کی ممانعت فرمائی ہے،چنانچہ حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: کَانَ تُبَّعٌ رَجُلاً صَالِحاً تبع نیک اور صالح انسان تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کی نہیں،بلکہ اس کی قوم کی مذمت کی ہے۔(الحاکم وغیرہ الصحیحۃ: رقم ۲۴۲۳)امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ زمانۂ
Flag Counter