نہیں کرتا، وہ یہ تو دیکھتا ہے کہ یکایک ٹھنڈی ہوا آئی،بادل گرجا، بجلی چمکی ،بارش برسی اور ہماری روزی کا سامان بن گیا، مگر یہ نہیں سوچتا کہ یہ سب کچھ کون کر رہا ہے، اور ایسے منعم کے میرے اوپر کچھ حقوق بھی ہیں کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس وصف کی بنا پر تعریف کی ہے: ﴿إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ لَحَلِیْمٌ أَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ﴾(ھود:۷۵) ’’بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل ،اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔‘‘ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے مومن کی اس صفت کے بارے میں مدارج السالکین (ص۴۶۶۔ ۴۷۴ ج۱) میں بڑی نفیس بحث کی ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ یہ مرتبہ توبہ کے بعد ہے اور چار اوصاف اس کو متضمن ہیں اللہ کی محبت ،اللہ کے لیے خضوع، اللہ کی طرف اقبال وتوجہ، اللہ تعالیٰ کے ماسوا سے اعراض۔ جس میں یہ چار صفتیں نہیں وہ’’منیب‘‘ کی صفت سے متصف نہیں ہو سکتا ۔شائقین اس حوالے سے المدارج کی مراجعت فرمائیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ تقویٰ کی اگرچہ سب سے اعلی اور ارفع کیفیت یہ ہے کہ انسان غفلت شعار نہ ہو بلکہ ہر لمحہ اللہ کا ذاکروشاکر رہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: أنْ یُّطَاعَ فَلََا یُعْصٰی، وَیُذْکُرَ فَلََا یُنْسٰی وَأنْ یُّشْکَرَ فَلََا یُکْفُرُ۔ (الحاکم) ’’کہ اللہ کی ایسی اطاعت کہ پھر نافرمانی نہ کی جائے اور اللہ کا ایساذکر کہ پھر اس کو بھولے نہ،اور اس کا ایساشکر کہ پھر نا شکری نہ ہو۔‘‘ لیکن انسان خطا ، سہواورنسیان کا پتلا ہے، خطا کے بعد اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ’’ منیب ‘‘ہے ۔ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے لیے کشاں کشاں حاضری بھی ’’منیب ‘‘ہی کا مقدر ہے، جو اللہ تعالیٰ سے تعلق کا مظہر ہے۔ |