وہ کتاب تغیر وتبدل اور کاٹ چھانٹ سے محفوظ ہے، اور دوسرا یہ کہ یہاں بمعنی’’حافظ ‘‘ ہے کہ یہ کتاب ان(موتی کے) تمام احوال وظروف کی حافظ ہے، اور یہ لفظقرآنِ مجیدمیں اسی معنی میں مستعمل ہے۔ چنانچہ اللہ گ فرماتے ہیں: ﴿وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أَولِیَآئَ اللَّہُ حَفِیْظٌ عَلَیْہِمْ ﴾(الشوریٰ:۶) ’’اور جنھوں نے اللہ کے علاوہ دوسروں کو اپنا کارساز بنالیا ہے اللہ ان سب کا نگہبان ہے۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿اجْعَلْنِیْ عَلیٰ خَزَآئِنِ الأَرْضِ إِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ﴾ (یوسف:۵۵) ’’زمین کے خزانوں کا انتظام میرے سپرد کردیں میں ان کی خوب نگرانی کرنے والا (حساب کتاب) جاننے والا ہوں۔‘‘ گویا خبر دار کیا گیا ہے کہ جس طرح یہ کتاب تمام جزئیات کی حافظ ونگہبان ہے اسی طرح میں بھی ایک ایک جزئی کو جانتا ہوں، کوئی چیز میری معلومات سے خارج نہیں۔ قرآنِ مجید میں ان دونوں پہلوؤں سے تمام اجزا کے علم کا تذکرہ دیگر آیات میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ﴾(الملک:۱۳) ’’کیا وہ نہیں جانتا کہ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے وہ تو بڑا باریک بین خبردار ہے۔‘‘ ﴿قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ أَنْشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ o الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَاراً فَإِذَا أَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَo أَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلیٰ أَنْ یَخْلُقَ |