مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’اواب‘‘ وہ ہے جو تنہائیوں میں گناہوں کو یاد کر کے ان پر توبہ واستغفار کرے۔ عبید بن عمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اواب‘‘وہ ہے جو اپنی ہر مجلس میں اللہ سے بخشش طلب کرے۔ گویا’’اواب‘‘ نفس کا بندہ نہیں بنتا ،بلکہ اپنے اللہ کا بندہ بنتا ہے۔ وہ تمام خواہشاتِ نفس کو چھوڑ کراللہ کی رضا جوئی میں رہتا ہے، اور جب کبھی اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو فی الفور توبہ واستغفار کے ذریعے سے اپنے اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے،اللہ جل جلالہ نے حضرات انبیاے کرام علیہم السلام میں حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: کہ ﴿نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّہُ أَوَّابٌ ﴾ (ص:۴۴)’’وہ بہترین بندے رجوع کرنے والے تھے۔‘‘اسی طرح حضرت داود علیہ السلام کے بارے میں بھی یہی وصف آیا ،چنانچہ فرمایا: ﴿وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْأَیْدِ إِنَّہٗ أَوَّابٌ ﴾ (ص:۱۷) حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بھی ہے ﴿وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمَانَ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّہٗ أَوَّابٌ ﴾(ص:۳۰) پانچ وقت کی نمازوں میں باجماعت حاضری بھی’’اواب‘‘ ہونے کی علامت ہے کہ وہ شب وروز پانچ باراللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا یُحَافِظُ عَلٰی صَلَاۃِ الضُّحٰی إلَّا أَوَّابٌ قَالَ: وَھِیَ صَلَاۃُ الْأوَّابِیْنَ۔(ابن خزیمہ:ص ۲۲۸ج۲، الحاکم :ص۳۱۴ج۱ ،الصحیحہ :۱۹۹۴) ’’صلاۃ الضحیٰ کی محافظت ’’اواب‘‘ہی کرتا ہے ۔اور اس نماز کے بارے میں آپ نے فرمایا: یہ صلاۃ الاوّابین ہے۔‘‘ سورج نکلنے کے بعد جو نماز پڑھی جائے اسے صلاۃ الضحی کہتے ہیں، البتہ اگر وہ سورج طلوع ہونے کے جلد بعد پڑھی جائے تو اسے صلاۃِ اشراق کہتے ہیں اور اگر سورج بلند ہونے پر پڑھی جائے تو اسے صلاۃ الضحیٰ یا صلاۃ الاوابین کہتے ہیں۔ یہ وقت بھی چونکہ غفلت اور کام کاج کا ہوتا ہے اس لیے اس میں اللہ کی طرف رجوع کو صلاۃ الاوابین سے تعبیر کیا گیا ہے۔واللہ اعلم دوسرا وصف’’حفیظ ‘‘ ہے، جو بمعنی ’’حافظ‘‘ ہے یعنی حفاظت کرنے والا۔ مراد وہ |