ہے، اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا کار تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطاپر بھی گنہگار نہیں ہوتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہل سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے۔‘‘ علامہ نووی رحمہ اللہ نے جو کچھ بیان فرمایا تھوڑی سی تفصیل سے اہل سنت کا یہی موقف انہوں نے ’’کتاب فضائل الصحابہ‘‘ کے اوائل میں بیان کیا ہے۔ جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع صحیح ہے، اپنے وقت میں وہ خلیفہ تھے ان کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل، فضلاء اور نجباء صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے ان کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں اس کی وجہ یہ شبہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی حقانیت کا اعتقاد رکھتا تھا یہ سبھی عادل ہیں جنگوں اور دیگر اس قسم کے معاملات میں متأول ہیں، ان میں سے کوئی چیز ان میں سے کسی کو عدالت سے خارج نہیں کرتی اس لئے کہ وہ سب مجتہد تھے، ان مسائل میں جو محل اجتہاد ہیں ان میں باہم اسی طرح اختلاف ہوگیا جس طرح ان کے بعد میں دوسرے مجتہدین قصاص وغیرہ مسائل میں مختلف ہو گئے۔ ان باتوں کے سبب کسی میں کوئی نقص نہیں، ان کے باہم لڑنے کا سبب یہ تھا کہ معاملات کچھ الجھن کا شکار ہوگئے جس کی وجہ سے ان کے اجتہاد میں اختلاف کے نتیجہ میں تین گروہ بن گئے۔ ایک گروہ سمجھتا تھا کہ میں حق پر ہوں دوسرا باغی ہے اور باغی سے قتال ضروری ہے، دوسرا گروہ اس کے برعکس مدعی تھا کہ وہ حق پر ہے اور ان کا مدمقابل باغی ہے، تیسرا گروہ وہ تھا جن کے نزدیک معاملہ مشکل تھا وہ دونوں میں سے کسی کے موقف کو راجح نہ سمجھ سکے تو دونوں سے علیحدہ ہو گئے، اگر ان کے نزدیک واضح ہو جاتا ہے کہ فلاں فریق حق پر ہے تو وہ اس کی تائید میں پیچھے نہ رہتے، اس لئے یہ سب حضرات معذور ہیں اور اہل حق اس پر متفق ہیں کہ وہ سب |