نوعیت کو بھی اس کے بعد انہوں نے بیان کر دیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے انعقادخلافت کی ابتدا ہی میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے مؤاخذ کرنا خلافت کی کمزوری کا باعث ہو سکتا ہے جبکہ ان میں سے اکثر لوگ لشکر اسلام میں شامل تھے، اس لئے انہوں نے اس سلسلے میں تاخیر مناسب سمجھی، جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا گمان یہ تھا کہ اگر قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں تاخیر کی جائے تو اس سے خون ریزی میں اضافہ ہو گا اور خلیفہ کے خلاف سرکشی کے اقدام کو حوصلہ ملے گا۔ جس کی بنا پر وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے مؤاخذہ میں تاخیر کو پسند نہیں کرتے تھے، اجتہاد کے اسی اختلاف کے نتیجہ میں بالآخر جنگ صفین واقع ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف بلاشبہ اقرب الی الصواب تھامگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی اجتہادی غلطی کی بنا پر ان پر طعن و ملامت کرنا درست نہیں ۔ یہی کچھ انہوں نے عقیدہ کے متعلق اپنی کتاب ’’الاقتصادفی الاعتقاد‘‘ میں فرمایا ہے، علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ہیتمی المکی امام غزالی رحمہ اللہ وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’ویحرم علی الواعظ وغیرہ روایۃ مقتل الحسین وحکایاتہ وماجری بین الصحابۃ من التشاجر والتخاصم فانہ یھیج علی بغض الصحابۃ والطعن فیھم وھم أعلام الدین تلقی الأئمۃ الدین عنھم روایۃ ونحن تلقیناہ عن الائمۃ درایۃ فالطا عن فیھم مطعونا فی نفسہ ودینہ ‘‘ (الصواعق المحرقۃص 223) ’’واعظ وغیرہ پر حرام ہے کہ مقتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوبیان کرے اور اس پر حرام ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے جھگڑوں اور اختلافات کو بیان کرے کیونکہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے اور ان پر طعن وملامت کرنے پر برانگیختہ کرتا ہے، حالانکہ وہ تو دین کے ستون ہیں ائمہ نے ان سے دین روایۃً لیا اور ہم نے ائمہ سے دین درایۃً لیا۔ لہذا ان پر طعن کرنے والا خود مطعون ہے جو اپنے آپ اور اپنے دین میں طعن و ملامت کرتا ہے۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ نے مشاجرات صحابہ کی حکایت بیان کرنے اور ا سے موضوع سخن بنانے کے نتیجہ میں جس خطرناک پہلو کا اشارہ کیا، ’’تحقیق‘‘ کے نام سے لکھی گئی کتابوں کے برگ و بار اس |