Maktaba Wahhabi

56 - 166
کے دور میں نظرثانی (revision)کی گئی۔ اس فصل میں اس نے قراء اتِ قرآنیہ پر بھی نقد کی ہے اور اس کے بقول قرآن کی نص (text) کے آسمانی ہونے کی نفی قراء ات (Variant Readings of the Quran) سے بھی ہوتی ہے2۔! قراء ات پر مستشرقین کے اعتراضات کے بارے ہم آرتھر جیفری کے ذیل میں اپنی معروضات پیش کر چکے ہیں۔ دوسری فصل کا موضوع قرآن مجید کا مکی پیغام ہے۔ اس بحث کے تحت اس نے مکی سورتوں کی خصوصیات اور اسالیب کلام پر گفتگو کی ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ مکی قرآن کے مضامین وہی ہیں جو وحی کے نزول سے پہلے آپ کے غارِ حرا کے مراقبے میں نمایاں تھے اور گویا غارِ حرا کے انہی خیالات نے شدت فکر کی کیفیت میںخود کلامی (soliloquy) صورت اختیار کر لی۔ من جملہ اس کا کہنا یہ ہے کہ مکی قرآن اپنے پیغام کے اعتبار سے مضطرب (confused)ہے۔3" مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب ہم نولڈیکے کے بیان میں نقل کر چکے ہیں۔ تیسری فصل کا عنوان مدنی قرآن ہے اور یہ اس کے بقول ۲۴ سورتوں پر مشتمل ہے۔ چوتھی فصل کا موضوع علومِ قرآن ہے جس میں اس نے لغات القرآن، نحوالقرآن، قراء اتِ قرآنیہ اور بلاغت قرآن وغیرہ پر گفتگو کی ہے۔ پانچویں فصل قرآن کی تفسیر، اصولِ تفسیر اور تفسیر کے مقاصد واہداف کے بارے میں ہے۔ اس موضوع کے تحت اس نے تفسیر لفظی، تاویل، مشہور مفسرین اور ان کی کتب تفسیر پر بحث کی ہے۔4 چھٹی فصل مصادرِ اسلام کے بارے میں ہے۔ اس میں قرآن، سنت،اجماع، قیاس اور اجتہاد وغیرہ کے بارے میں اس نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور قرآن کے مصدرِ شریعت ہونے کی حیثیت پر گفتگو کی ہے۔ ساتویں فصل میں قرآن مجید کے مسلم معاشروں میں مقام اور اسلامی طرزِ حیات میں اہمیت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ 5 بلاشیے کا یہ مقدمہ قرآن مجید اوراسلام پر الزامات واعتراضات سے بھرا پڑا ہے، جیسا کہ اس نے پہلی فصل میں ہی قرآن مجید پر یہ طعن کیا ہے کہ اس کا اسلوبِ کلام فکری الجھن (Intellectual Confusion)کا شکار ہے اور یہی اعتراض یہودی مستشرق گولڈ زیہر (۱۸۵۰۔۱۹۲۱ء) کا بھی ہے۔ ابراہیم عبد الکریم عبد اللہ نے اپنے مقالے
Flag Counter