Maktaba Wahhabi

28 - 166
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر قرآن مجید میں سے کچھ چھپانا ہوتا تو یہ آیت ضرور چھپا لیتے9۔ یہ آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ وحی کا منبع آپ کی داخلی کیفیت نہیں تھی ۔ جہاں تک سورتوں کو ترتیب نزولی (Descending Order) کے اعتبار سے جمع کرنے کی کوشش کی بات ہے تو یہ کام نولڈیکے کے علاوہ، بلاشیے اور رچرڈ بیل وغیرہ نے بھی کیا ہے اور ان سب کا آپس میں اختلاف بھی ہے۔اور مستشرقین کا یہ باہمی اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کو ترتیب نزولی کے اعتبار سے جمع کرنے کے ان کے اصول اور نتائج دونوں درست نہیں ہیں۔ قرآن مجید کی ترتیب نزولی میں کچھ تفسیری روایات ہمیں تفسیر وحدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں جن کی بنیاد پر بعض مسلمان علماء نے بھی ترتیب نزولی کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ نولڈیکے وغیرہ جیسے مستشرقین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ترتیب نزولی کو متعین کرنے کے لیے تفسیری روایات کی بجائے اپنے مزعومہ اصولوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جیسا کہ قرآنی نص کے تحلیلی جائزہ (Analytical Analysis of the Text) کے ذریعے اس کا زمانہ نزول متعین کرنا وغیرہ۔ اس طرح کے اصول یقینی طور کسی نص کے زمانہ نزول کو متعین نہیں کر سکتے البتہ گمان یا احتمال کی حد تک کا علم حاصل ہو سکتا ہے۔ اور اس احتمالی علم کی بنیاد پر کسی علمی موقف کی بنیاد رکھنا درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر مہر علی نے اپنی کتاب "The Quran and the Orientalists"میں نولڈیکے کی قرآنی سورتوں کی ترتیب نَو کا کئی ایک پہلوؤں سے تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔10 جہاں تک قرآن مجید میں کمی بیشی کا معاملہ ہے تو اس بارے خود نولڈیکے کنفیوژن کا شکار ہے۔ اس نے قرآن مجید میں کمی کے اثبات کے لیے "It has been conjectured" کے الفاظ استعمال کیے ہیں جسے ہم اپنی زبان میں ظن وتخمین کہتے ہیں۔ اوربے بنیاد قیاس آرائیوں پر اپنے موقف کو قائم کرنا علمی رویہ نہیں ہے۔ مالک حسین شعبان نے ۲۰۱۱ء میں جامعہ یرموک (Yarmouk University)، اُردن سے قراء ات اور رسم عثمانی کے بارے نولڈیکے کے افکار پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کے مقالے کا عنوان ’’القراآت القرآنیۃ فی کتاب تاریخ القرآن للمستشرق الألمانی نولدکہ: عرض ونقد‘‘ ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر رضا محمد الدقیقی نے بھی
Flag Counter