Maktaba Wahhabi

108 - 166
(متوفی ۹۴ھ) تک حدیث کی سند موجود نہیں تھی اور احادیث بغیر سند کے نقل ہو رہی تھیں اور زہری (متوفی ۱۲۴ھ) کے زمانے میں اسناد کا رواج عام ہوا43۔ روبسن کا کہنا یہ بھی ہے کہ معروف مؤرخ اور سیرت نگار ابن اسحاق (متوفی ۱۵۰ھ) نے دوسری صدی ہجری کے نصف اول میں اکثر معلومات بغیر سند یا ناقص سند کے ساتھ بیان کی ہیں۔44 ڈاکٹر مصطفی الاعظمی کے بقول جیمز روبسن بات کی حقیقت کو سمجھنے سے بھی قاصر ہے45۔ اور یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ روبسن تاریخ اور حدیث میں فرق بھی نہیں کر سکا۔ وہ حدیث پر نقد کرتے ہوئے یہ دلیل بیان کرنے لگ جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثر تاریخ بغیر سند کے نقل ہوئی ہے ۔ سیرت بھی تاریخ اسلام کا ہی ایک باب ہے اور تاریخ مصادرِ اسلام میں سے نہیں ہے جبکہ سنت وحدیث مآخذ اسلام میں سے ہیں۔ سنت اور سیرت کی کتابیں ہمیشہ سے مختلف رہی ہیں۔ سیرت کے بنیادی مصادر سیرت ابن اسحاق یا سیرت ابن ہشام کو کبھی بھی مآخذ شریعت کے طور پرنقل نہیں کیا گیا، جبکہ صحاحِ ستہ جو سنت وحدیث کی کتب ہیں، کو قانونِ اسلامی میں ایک مصدر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ سیرت کا مطمح نظر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی کا جامع مطالعہ ہے جبکہ سنت وحدیث میں اصل مقصود شریعت اسلامیہ کی حفاظت ہے۔ یونیورسٹی آف برمنگھم سے جیمز روبسن اور جان برٹن کے نظریہ حدیث پر پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ بعنوان "A critical study of western views on Hadith with special reference to the views of James Robson and John Burton" ۲۰۱۱ء میں ہوا ہے جس میں ان دونوں کے نقطہ نظر کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے46۔M علاوہ ازیں ڈاکٹر حاکم عبیسان المطیری نے بھی اپنی کتاب ’’تاریخ تدوین السنۃ وشبھات المستشرقین‘‘ میں روبسن کے نقطہ نظر پر نقد کی ہے۔ ڈاکٹر لقمان سلفی نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ ’’اھتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا ومتنا ودحض مزاعم المستشرقین وأتباعھم‘‘ میں نمایاں مستشرقین کے علاوہ مسلمانوں میں ان کے افکار سے متاثرمصری اور ہندی اسکالرز مثلاً احمد امین، ابو ریہ، احمد زکی ابو شادی، اسماعیل ادھم، سر سید احمد خان اور چراغ علی وغیرہ کے نظریات کا بھی علمی محاکمہ کیا ہے۔
Flag Counter