المیت: 12، 1004)
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میری والدہ اچانک فوت ہو گئی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہیں بولنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتی۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس کی طرف سے صدقہ کرو۔‘‘
اس حدیث سے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس صدقہ کا اجر و ثواب دینے والے اور میت دونوں کو پہنچتا ہے۔ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ میت کی طرف سے نفلی صدقہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ اگر میت کے ذمہ مالی حقوق ثابت ہو جائیں تو انہیں ترکہ میں سے ادا کرنا واجب ہے خواہ میت نے اس کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ جیسا کہ زکوٰة، حج، نذر، کفارہ اور بدل صوم وغیرہ یا پھر کسی فرد کا قرض ہو تو وہ بھی چکانا ضروری ہے۔ اگر میت کوئی ترکہ نہ چھوڑے تو ورثاء کے ذمہ قرض کی ادائیگی لازم نہیں ہے لیکن ورثاء یا دیگر افراد کے لئے بہتر ہے کہ وہ اسے ادا کریں۔
(امام نووی نے شرح مسلم میں یہ تشریح فرمائی ہے:11؍84)
عن أبی هریرة أن رسول اللّٰه قال: ((إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة: إلا من صدقة جاریة أو علم ینتفع به أو ولد صالح یدعو له))(صحیح مسلم،کتاب الوصیة، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاته:3؍1255)
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین ذرائع کے۔ صدقہ جاریہ، نفع دینے والا علم اور دعا کرنے والی اولا۔‘‘
|