نام تو ضرورتھا لیکن اس کا طریقہ کار محض فرضی اور صرف کاغذوں کی حد تک محدود تھا اور حقیقت میں نقد رقم ہی کا تبادلہ ہوتا تھا جو سُودہی کی ایک شکل تھی، اس موقع پر میں نے اپنے اس مضمون میں اس طریقہ کار کی پر زور مخالفت کی اور بتایا کہ اس طریق کار میں مرابحہ مؤجلہ کی شرائط بھی پوری نہیں ہورہی ہیں، اس لیے یہ طریق کار بالکل ناجائز ہے۔ اسی مضمون میں میں نے ایک طرف اسٹیٹ بینک کے مجوزہ طریقے کو بالکل ناجائز قراردیا اور دوسری طرف مرابحہ مؤجلہ کے صحیح طریقے کو بالکل ناجائز نہیں کہا،البتہ چونکہ مخاطب حکومت تھی، اس لیے اپنے مذکورہ بالا موقف کے مطابق یہ مطالبہ بھی بہت زور و شور کے ساتھ کیا کہ اس کا استعمال کم کرکے شرکت اور مضاربت کو فروغ دیا جائے۔ جس طریق کار کو بالکل ناجائز کہا گیا تھا، اس کا کچھ حصہ خود اسٹیٹ بینک نیوز کے حوالے سے اُسی مضمون میں بیان کردیا گیا تھا اور وہ یہ تھا:
”جن اشیاء کے حصول کے لیے بینک کی طرف سے رقم فراہم کی گئی ہے،ان کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ بینک نے اپنی فراہم کردہ رقم کے معاوضے میں بازار سے اشیاء خریدلی ہیں اور پھر انہیں نوے دن کے بعد واجب الاداء رقم پر ان اداروں کے ہاتھ فروخت کردیا ہے جو اس سے رقم لینے آئے ہیں۔“[1]
اس سے واضح ہے کہ بینک نے حقیقت میں کوئی بیع نہیں کی بلکہ محض فرض کر لیا کہ کوئی چیز بازار سے خرید لی ہے اور اپنے گاہک کو بیچ دی ہے جس کی قیمت نوے دن بعد ہی واجب الاداء ہوگی۔ اس کے علاوہ اس طریق کار میں بسا اوقات یہ فرضی بیع بھی ”عینہ“(Buy back) کے طور پر انجام دی جاتی تھی، یعنی ایک شخص بینک کو اپنا کوئی سامان نقد قیمت پر بیچتا اور اُسی وقت بینک سے وہی سامان زیادہ قیمت پر اُدھار خرید لیتا تھا اور یہ بیع بھی محض فرضی اور کاغذی ہوتی تھی اس لیے میں نے اس پر سخت
|