Maktaba Wahhabi

25 - 154
ح۱۹۳ دھلیۃ الاولیاء ج۵ ص ۹۷ و جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبدالبرج ۲ ص ۱۳۶ والاحکام لابن حزم ج۶ ص۲۳۶ و صححہ ابن القیم فی اعلام الموقعین ج۲ ص۲۳۹) اس روایت کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: ’’والموقوف ھو الصحیح‘‘ اور (یہ) موقوف (روایت) ہی صحیح ہے (العلل الواردۃ ج۶ ص۸۱ سوال۹۹۲) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی تقلید سے منع کیا ہے۔ (السنن الکبری:۲/۱۰ وسندہ صحیح) ائمہ اربعہ ۰امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام شافع اور امام احمد بن حنبل) نے بھی اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کیا ہے (فتاوی ابن تیمیہ:ج۲ ص۱۰، ۲۱۱، اعلام الموقعین:ج۲ ص۱۹۰، ۲۲۰، ۲۰۷، ۲۱۱، ۲۲۸) کسی امام سے بھی یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہے کہ اس نے کہا ہو: ’’میری تقلید کرو‘‘ اس کے برعکس یہ بات ثابت ہے کہ مذاہب اربعہ کی تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں شروع ہوئی ہے۔ (اعلام الموقعین:ج۲ ص۲۰۸) اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ تقلید جہالت کا دوسرا نام ہے اور مقلد جاہل ہوتا ہے: (جامع بیان العلم:ج۲ ص۱۱۷، اعلام الموقعین:ج۲ ص۱۸۸، ج۱ ص۷) ائمہ مسلمین نے تقلید کے ردّ میں کتابیں لکھی ہیں مثلاً امام ابو محمد القاسم بن محمد القرطبی (متوفی ۲۷۶ھ) کی کتاب ’’الایضاح فی الرد علی المقلدین‘‘ (سیر اعلام النبلاء ج۱۳ ص۳۲۹) جبکہ کسی ایک مستند امام سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہے کہ اس نے تقلید کے وجوب یا جواز پر کوئی کتاب یا تحریر لکھی ہو۔ مقلدین حضرات ایک دوسرے سے خونریز جنگیں لڑتے رہے ہیں (معجم البلدان: ج۱ ص۲۰۹،ج۳ ص۱۱۷، الکامل لابن الاثیر: ج۸ ص۳۰۷، ۳۰۸، وفیات الاعیان: ج۳ ص۲۰۸) ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے ہیں (میزان الاعتدال: ج۴ ص۵۲، الفوائد البہیہ ص۱۵۲، ۱۵۳)۔ انہوں نے بیت اللہ میں چار مصلے قائم کر کے
Flag Counter