Maktaba Wahhabi

24 - 154
’’کسی کی بات کو بلا دلیل مان لینا تقلید کی اصل حقیقت یہی ہے لیکن …‘‘ (اصول الفقہ ص۲۶۷) اصل حقیقت کو چھوڑ کر نام نہاد دیوبندی فقہاء کی تحریفات کون سنتا ہے! احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’اس تعریف سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کا ہر قول و فعل دلیل شرعی ہے تقلید میں ہوتا ہے: دلیل شرعی کو نہ دیکھنا، لہٰذا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی کہلائیں گے نہ کہ مقلد، اسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گا کیونکہ کوئی بھی ان عالموں کی بات یا ان کے کام کو اپنے لئے حجت نہیں بناتا۔‘‘ (جاء الحق ج۱ ص۱۶)۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی پیروی سے منع کیا ہے جس کا علم نہ ہو (سورء بنی اسرائیل:۳۶) یعنی بغیر دلیل والی بات کی پیروی ممنوع ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بذات خود دلیل ہے اور اجماع کے حجت ہونے پر دلیل قائم ہے۔ لہٰذا قرآن، حدیچ اور اجماع کو ماننا تقلید نہیں ہے۔ دیکھئے (التحریر لابن ہمام:ج ۴ ص ۲۴۱، ۲۴۲ فواتح الرحموت: ج۲ ص۴۰۰) اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی شخص کی بھی تقلید کرنا شرک فی الرسالت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں رائے کے ساتھ فتویٰ دینے کی مذمت فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری:۲/۱۰۸۶ ح ۷۳۰۷) عمر رضی اللہ عنہ نے اہل الرائے کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن قرار دیا ہے (اعلام الموقعین:ج۱ ص۵۵) امام ابم قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ ان آثار کی سند بہت زیادہ ہے۔ (ایضاً)۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’امازلۃ عالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم‘‘ اور رہی عالم کی غلطی، اگر وہ ہدایت پر (بھی) ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔ (کتاب الزھد للامام وکیع ج ۱ ص ۳۰۰ ح۷۱ و سندہ حسن، کتاب الزھد لابی داود ص ۱۷۷
Flag Counter