Maktaba Wahhabi

44 - 154
بسم اللّٰه الرحمن الرحیم قرآن و حدیث میں تحریف تحریف کا مطلب ہے کسی مضمون کو بدل دینا، تحریر میں اصل الفاظ بدل کر کچھ اور لکھ دینا، عبارت میں ردّ و بدل، تغیر و تبدل کرنا۔ یہود کے علماء کی اللہ تعالیٰ نے یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ کتاب اللہ کے مضمون میں ردّ و بدل اور تبدیلی کر ڈالتے تھے اور اللہ کے فرمان کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَـــکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:۷۵) ’’(اے مسلمانوں) کیا پھر بھی تم توقع رکھتے ہوں کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی تھا جو اللہ کا کلام سننے اور اس کو سمجھ لینے کے بعد تحریف کر ڈالتے تھے حالانکہ وہ جانتے ہوتے تھے۔‘‘ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّا بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ ’’ان لوگوں میں سے جو یہودی ہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو الفاظ کو ان کے موقع و محل سے پھیر دیتے ہیں (بظاہر کہتے ہیں) تجھے سنائی نہ دے اور آپ کو راعنا کے بجائے راعینا کہتے ہیں اپنی زبان کو توڑ موڑ کر اور تمہارے دین پر طعن کرتے ہوئے۔‘‘ ایک اور مقام پر اشاد ہے: فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ
Flag Counter