Maktaba Wahhabi

96 - 103
عبادات میں افراط و تفریط یا انتہاء پسند ی اتّباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم و مقصود یہ ہے کہ جو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا یا کرنے کا حکم فرمایا یا کسی کو کر تے دیکھا اور اسے منع نہ فرمایا ہو ،اُسے اپنایا جائے اورجوکام نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا، نہ کرنے کا کسی کو حکم دیا بلکہ اس سے روکا ہو، ایسا کام کرنے سے اجتناب کیا جائے، اِسی کا نام اتّباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اتّباعِ سنّت ہے جو کہ ہمارے لیٔے ذریعہ نجات ہے۔ کوئی کام بظاہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ نظر آتا ہو،اگر وہ سنّت کے مطابق نہیں تو نا مقبول ہے۔ ایسے ہی انتہا ء پسندی کا رجحان بھی شریعتِ اسلامیہ کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا ۔مثلاً ایک کام تو اچھا اور نیک ہے مگر اُس کی ادائیگی میں ایسا رویہ اختیار کرلیا کہ وہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی کے ضمن میں آجائے تو یہ بھی روا نہیں کیونکہ سورۂ حجرات کی پہلی ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کر نے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: {یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ، إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ علیہم السلام } ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے آگے مت بڑھو(یعنی ان کے احکام سے پیش قدمی مت کرو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا او ر جاننے والا ہے۔‘‘ اس انتہاء پسندی یا پیش قدمی کاایک واقعہ کتبِ حدیث میں بھی موجود ہے، صحیح بخاری ومسلم شریفمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:’’تین آدمی نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن (میں سے کسی) کے پاس آئے اور ان سے نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی عبادت کے بارے میں پوچھا، جب ا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بار ے میں بتادیا گیا، تو انہوں نے کہا : ((أَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَقَدْ غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَاتَأَخَّرَ))
Flag Counter