اس روایت کی تقویت کے لئے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت پیش کی ہے کہ بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کان میں ان کی ولادت کے دن اذان کہی اور بائیں کان میں اقامت کہی(سلسلہ ضعیفہ 1/331 ارواء الغلیل 4/401)اور اسے ابو رافع رضی اللہ عنہ کی روایت کا شاہد ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔امام بیہقی نے اگرچہ اسے ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ ضعیف کی بجائے موضوع ہے۔کیونکہ اس میں محمد بن یونس الکدیمی ہے جس کے بارے میں امام ابن عدی فرماتے ہیں یہ روایات گھڑنے کے ساتھ متہم ہے امام ابن حبان فرماتے ہیں اس نے ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں اسی طرح اسے موسیٰ بن ہارون اور قاسم المطرز نے بھی اس کی تکذیب کی ہے۔(میزان 4/74)
امام دارقطنی نے بھی اسے روایات گھڑنے کی تہمت دی ہے لہذا یہ روایت موضوع ہونے کی وجہ سے شاہد بننے کے قابل نہیں ہے۔اسی طرح اس میں کدیمی کا استاذ اور استاذ الاستاذ بھی ضعیف ہیں۔اسی طرح حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت ہے کہ"جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو اسے ام الصبیان(بیماری ہے)تکلیف نہیں دے گی(شعب الایمان 8619)اس کی سند میں یحییٰ بن العلاء الرازی کذاب راوی ہے،لہذا بچے کے کان میں اذان و اقامت والی روایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔واللہ اعلم
نومولود کے کان میں اذان دینے والی احادیث کی تحقیق
سوال:آپ نے مجلۃ الدعوۃ جون 2002ء میں نومولود کے کان میں اذان کہنے والی روایات کو ضعیف قرار دیا جبکہ سندھ سے شائع ہونے والے ماہنامہ"دعوت اہل حدیث"میں آپ کے موقف کو رد کیا گیا ہے اور اسے حسن بتایا گیا ہے اس کی وضاحت فرمائیں۔(ابو عبداللہ،لاہور)
جواب:میری تحقیق اب بھی یہی ہے کہ نومولود کے کان میں اذان کہنے کے بارے
|