Maktaba Wahhabi

41 - 103
ترمذی ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشاد ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَۃُ مِنْ حَاجَتِہٖ فَقَدْ أَشْرَکَ،قَالُوْا:فَمَا کَفَّارَۃُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: أَنْ تَقُوْلَ : اَللّٰہُمَّ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَلَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَلَا اِلَـٰہَ غَیْرُکَ )) ’’ جس شخص کو پرندے سے لی گئی فال ِ بد اپنے کام سے روک دے ،اُس نے شرک کیا۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اس کا کفّارہ کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اس کا کفّارہ یہ دعاء ہے : ((اَللّٰہُمَّ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَلَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَلَا اِلَـٰہَ غَیْرُکَ )) ’’اے اللہ ! تیری خیر کے سوا کوئی خیر نہیں ،تیری تقدیر کے سامنے کوئی پرندہ کچھ نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود ِ بر حق نہیں ‘‘ ۔[1] تحفُّظِ عقیدہ کے لیٔے دُور رَس تدابیرِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ کام پر روانہ ہونے سے قبل ہی چھینک آگئی یا بِلّی راستہ کاٹ گئی یا پیچھے سے کسی نے آواز دے دی ہے، تو اب میرا کام نہیں ہوگا ،اس نے دانستہ یا جان بوجھ کر نہیں تو نادانستہ یا انجانے میں بِلّی یا پیچھے سے آواز دینے والے کو نفع و نقصان کا مالک قرار دے دیا ہے، جو صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے ،ایسے ہی جو آدمی ماہ ِ صفر یا شوال کو اور روزِ منگل یا بدھ کو منحوس قرار دیتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے انتظام کو ناقص قرار دیتا اور اس کی تقسیم کو غلط سمجھتا ہے ۔ پرندہ اُڑا کر کام ہونے یا نہ ہونے کی فال لینے والا پرندے کو کیا سمجھ بیٹھا ہے ؟ کیا اُسے اللہ تعالیٰ کے خاصۂ غیب دانی سے کچھ حصّہ ملا ہوا ہے ؟ بھئی !یہ سب شیطان کی چالیں ہیں ۔جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ مسلمان کھلے طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائے گا ۔تب وہ اُسے
Flag Counter