Maktaba Wahhabi

51 - 103
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جادُو کی کوئی حقیقت نہیں ،یہ محض نظر بندی اور نگاہوں کا فریب ہوتا ہے ۔[1] حالانکہ اکثر آئمہ کرام اور اہل ِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ جادُو ایک حقیقت ہے ،اگر اس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اِس سے پناہ مانگنے کی تعلیم و تلقین نہ فرماتا حالانکہ تیسویں پارے کی سورۂ فلق میں ہے :{بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم} { قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الفَلَقِ علیہم السلام مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ علیہم السلام وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ علیہم السلام وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثـٰـتِ فِي الْعُقَدِ علیہم السلام وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ علیہم السلام } ’’(شروع کرتا ہوں ) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔‘‘ ’’آپ کہہ دیجیٔے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ، ہر اُس چیز کے شرّ سے جو اس نے پیدا کی ہے ، اور اندھیری رات کی تاریکی کے شرّ سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے ، اور گِرہ [لگا کر اُن] میں پھونکنے والیوں کے شرّ سے [بھی ]، اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے ‘‘ ۔ اس سورۃ میں {وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثـٰـتِ فِي الْعُقَدِ علیہم السلام }کا معنیٰ ہی یہ ہے کہ ’’[میں پناہ مانگتا ہوں ] گِرہوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر ّسے ‘‘ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جادُو گرنیوں کی بھی نزولِ قرآن کے زمانہ میں کثرت تھی مگر آج صورت ِ حال کچھ بدل چکی ہے جیسا کہ ہم سابق میں ذکر کر آئے ہیں ۔ اگر یہ جادُو کوئی مؤثّر چیز نہ ہوتا، محض فریب ِ نظر ہی ہوتا تو پھر اس سے پناہ مانگنے کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہتا ۔ اور سورۂ بقرہ میں جس فعل کو کُفر قرار دیا گیا ہے وہ بے حقیقت و بے اثر کیسے ہوسکتا ہے؟ اور سورۂ طٰہٰ کی آیت : ۶۹ میں ارشاد ِ الٰہی ہے :
Flag Counter