Maktaba Wahhabi

30 - 120
جب شارع علیہ السلام نے اس شب کی نہ تو کوئی فضیلت بیان فرمائی نہ اہتمام نوافل فرمایا، تو ہم یہ سارے کام کس دلیل کے تحت کریں ؟ کس فرد کو حق تعالیٰ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے طور پر شریعت میں رخنہ اندازیاں کرے؟ مختلف قسم کی عبادات ایجاد کرے؟ ہمارے کچھ احباب کہتے ہیں کہ ’’چھوڑیئے صاحب! آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ آخر لوگ عبادت ہی تو کر رہے ہیں کوئی بُرا فعل تو نہیں کر رہے ہیں ۔‘‘ میں جواباََ عرض کرتا چلوں کہ فی الواقع عبادت الٰہی ایک امر عظیم ہے۔ مگر عبادت صرف وہی ہے جو کہ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاََو فعلاََ ثابت ہے، ہمیں عبادت کے سلسلے میں اس بدّو کا اسوہ پیش نظر رکھنا چاہیئے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ عمل دریافت کیا جو جنت کی طرف رہنمائی کرتا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایمان باﷲوبالرسول کے ساتھ نماز، روزہ زکوٰۃ اور حج کی تلقین فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سن کر اس نے ان کلمات کی ادائیگی کے ساتھ پشت پھیری: ’’اﷲکی قسم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں میں نہ زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا۔‘‘ اس کا یہ کلام سن کر ا ﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی کو کوئی جنتی دیکھنا ہو تووہ اسے دیکھ لے۔‘‘ [1] اس حدیث اور واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مومن و مسلم صرف وہی ہیں جو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اس انداز سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات میں اپنی خواہشات ِ نفس کی پیروی کرتے ہوئے نہ تو ردوبدل کرتے ہیں نہ ہی کسی قسم کی کمی بیشی کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی کے مطابق نئے نئے امور ایجاد کرتے ہیں اور انہیں کار ثواب جانتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر ایسے بہت سے حضرات سے واقف ہوں جو کہ شب معراج کو بڑی رات کہتے ہیں، لیکن ساری رات جوا کھیلتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ نام نہاد علماء ہیں کہ اس
Flag Counter