Maktaba Wahhabi

40 - 120
لیکن نیت تو دل میں یہی ہوتی ہے کہ یہ پیران پیر کی نیاز کا ہے۔ لہٰذا باوجود تکبیر پڑھ کر ذبح کرنے کے یہ جانور حرام ہی رہتا ہے اور دلیل اس کے حرام ہونے کی فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ)) [1] ہے یعنی ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘۔ چنانچہ ہجرت جیسے عظیم فعل کے بارے میں فرمایا کہ جس کی ہجرت خالصتاََ اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تھی پس اس کی ہجرت اﷲاور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کہلائے گی اور جس کسی نے دنیا یا کسی عورت کے سبب ہجرت کی تو وہ ہجرت ان ہی چیزوں کی طر ف ہجرت کہلائے گی اﷲکی طرف سے ایسی ہجرت پر کوئی اجر نہیں،بالکل یہی معاملہ غیر اﷲکے ذبیحے کا ہے، اگرچہ اس پر ذبح کے وقت ((بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ)) کہہ کر ہی چھری پھیری گئی لیکن نیت یہ تھی کہ اس کو گیارھویں کے موقع پر بڑے پیر صاحب کی نیاز کے لیے ذبح کیا جارہا ہے ، پھر عمل کے ذریعے یہی کام کیا گیا تو ایسا کھاناکیوں کر حلال ہوسکتا ہے؟جبکہ قرآن مجید کی سورۂ بقرہ آیت : ۱۷۳ ،سورہ مائدہ، آیت : ۳، سورۃ الانعام آیت: ۱۴۵ اور سورۃ النحل آیت: ۱۴ میں اس قسم کاکھانا کھانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے ایسا کوئی عمل شریعت اسلامی میں جائز اور روا نہیں جو قرآن و حدیث اورسنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متصادم ہو، اگر بزرگوں کے نام کے بکرے ذبح کرنے اور ان کے نام پر فاتحہ خوانیاں جائز ہوتیں تو رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی بلکہ ہر نبی کے نام کی نذر و نیازا ور فاتحہ ضرور کرتے اور اس عمل کی تلقین اُمّتِ مُسلمہ کو بھی ضرور فرماتے۔ لہٰذا گیارھویں کو شرک اور بدعت کی جاہلانہ رسم سے زیادہ کچھ اور نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ (۹) مزارات پر عرس اور میلے: بزرگان دین اور اولیائے کرام کے مزارات اور مقابر پر عُرس اور میلوں کا سالانہ
Flag Counter