Maktaba Wahhabi

66 - 120
سلام کے ساتھ ہی ہوتا ہے جو کہ کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے۔ اور کھڑے ہونے کی وجہ پہلے گذر چکی ہے کہ وہ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو مانتے ہیں ۔ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں جب کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان تشریف لاتے ہمیں اس بات کا ثبوت آج تک نہیں ملا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر کھڑے ہو کر لہک لہک کر اور گا گا کر’’یا نبی السلام علیک‘‘ یا ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ وغیرہ گایا ہو۔ بے شک حق تعالیٰ خود بھی اور اس کے فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں مگر مذکورہ بالا گانا نما سلام پڑھ کر نہیں۔ اسی طرح اہل ایمان بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں مگر مرثیوں کی طرح نہیں بلکہ تعلیمات ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق درود ابراہیمی پڑھ کر اور یہی طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا بھی تھا۔ اس طریقہ سے ہٹ کر آج کل کا مروجہ رضا خانی طریقہ سوائے بدعت کے اورکچھ نہیں ہے اور اس بدعت کے مرتکب اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بغور پڑھ لیں جس میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔‘‘[1] (۳۴) شرکیہ نعتیں : جہا ں تک نعتِ رسول کا تعلق ہے تو یہ ایک مستحسن فعل ہے۔ دور رسا لت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت حسان بن ثابت ، کعب اور عبد اﷲبن رواحہ رضی اللہ عنہم وغیرہ اکثر و بیشتر نعتیہ اشعار پڑھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اشعار کو پسند فرماتے تھے لیکن نعت گوئی کی آڑ میں شرک کرنا ان نعت گو صحابہ سے ظاہر نہیں اور نہ ہی ان مقدس ہستیوں سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے نعت گوئی کو کاروبار بنایا ہو جیسے کہ آج کل کے تمام کے تمام نعت خوانوں کی نعت خوانی ایک نفع بخش کاروبار ہے۔ نعت لکھنا اور پڑھنا صرف اس وقت تک جائز اور درست ہے جب تک کہ
Flag Counter