Maktaba Wahhabi

111 - 120
کرلیں ۔ یہی نقطۂ نظر ان دوکاندار حضرات کا ہے جو کہ اپنی دکانوں پر آیاتِ قرآنی کے طغرے لگاتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ ثواب حاصل کرنا اکتسابی فعل نہیں ہے بلکہ یہ تو اﷲتعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ جسے مستحقِ ثواب جانے اوراسے ثواب عطا فرمادے۔ اور یہ بات میں بالدلیل کہتا ہوں کہ چونکہ یہ طغرے لگانا اور بجائے تلاوت قرآنی کے ان طغروں سے کام چلانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و احادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے ثابت نہیں ہے۔لہٰذا اس کے ایک واضح بدعت ہونے کے سبب یہ کارِ ثواب نہیں ہے۔ اسی طرح مزاراتِ بزرگانِ دین، اولیاء اﷲکی فرضی تصاویر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی دُلدل وغیرہ کے طغرے لگانا اور ان طغروں کو خیر وبرکت کے حصول کا باعث گرداننا بدعت اور گمراہی ہے بلکہ ایسی بدعت ہے جو کہ شرک کے بہت ہی قریب ہے۔ (۷۱) اجرت پر قرآن پڑھنا اور پڑھوانا (قرآن خوانی): اس بدعت و گناہ میں صرف سنی ہی نہیں بلکہ بعض وہابی بھی مبتلا ہیں کہ صبح صبح ان کی دکانوں پر قاری اور حافظ صاحبان ماہانہ مشاہرے پر ہل ہل کر قرآن پڑھتے نظر آتے ہیں ۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس طرح ان کے کاروبار کی ابتداء کلامِ الٰہی کی تلاوت سے ہوجاتی ہے جس سے نہ صرف انہیں ثواب حاصل ہوتا ہے بلکہ ان کے کاروبار میں برکت بھی ہوتی ہے۔ اس طرح کچھ حضرات بلکہ عوام کی کثیر تعدادایسی بھی ہے جو اپنے گھروں پر بھی اجرت پر قاریوں حافظوں اور ملاّئوں سے قرآن پڑھواتے ہیں کہ ان کے گھر جادو، ٹونے، نحستی و بے برکتی اور بیماری وغیرہ سے محفوظ رہیں ۔ یہ درست ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اﷲتعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کا سبب ہے مگر تب ہی جبکہ یہ تلاوت خود کی جائے نہ کہ اجرت پر تلاوت کرائی جائے، شریعت اسلامیہ میں اس کا کوئی جواز نہیں کہ کرائے پر یا اجرت پر قرآن پڑھوایا جائے اور پھر اسے نیکی بھی گردانا جائے اور اپنے اس عمل سے ثواب و رضائے الٰہی کے حصول کو یقینی سمجھا جائے۔ لہٰذا یہ کہنا داخل غلو نہیں کہ اجرت پر قرآن پڑھنا پڑھوانا خواہ وہ دکان میں پڑھا اور
Flag Counter