Maktaba Wahhabi

21 - 120
تب بھی اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آیت میں صرف یہی چار بزرگ مراد ہیں ؟ کیونکہ آیت تو عام ہے جس سے قرآن و حدیث کا علم رکھنے والے تمام ہی علماء مراد ہونے چاہئیں ۔ کیا ان چاروں کے علاوہ دیگر آئمۂ کرام صحابہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کریں تو انکار کردیا جائے؟تحقیق سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار اماموں نے خود اپنی تقلید سے منع کیا ہے اور قرآن و حدیث ہی پر عمل کرنے کی نصیحت کی ہے جیسا کہ شاہ ولی اﷲنے اپنی کتابوں حجۃ اﷲاور عقد الجید میں بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم سے لوگوں کو سب سے زیادہ برگشتہ کرنے والی چیز یہی تقلید شخصی ہے، اور تقلید شخصی کا مطلب ہے چار میں سے کسی ایک امام کے نام سے جو فقہ وفتووں کی کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے مطابق عمل کرنا اگرچہ ان کتابوں کے مسائل قرآن مجید اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں ۔ اسی کے سبب لوگوں نے رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احادیث اور سنن مبارکہ ترک کردیں اور ان لوگوں کے اقوال و افعال کی تابعداری کرنے لگے ہیں جن کی تقلید کرنے کا حکم نہ اﷲتعالیٰ نے دیا ہے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ خود ان چاروں آئمہ نے بھی اس کا حکم نہیں دیا۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم تو ان چاروں کے علم و فضل کی بنیاد پر ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ حالانکہ ان کا یہ قول بھی بڑا کمزور ہے کیونکہ ان چاروں کا علم خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو ، نہ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے برابر ہوسکتا ہے اور نہ ہی زیادہ ، پھر کیونکر ان کی تقلید کی جائے؟ وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان حضرات کا زمانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قریب تر ہے۔اس لیئے ہم ان کی تقلید کرتے ہیں، لیکن یہ قول بھی بے بنیاد ہے کیونکہ اگر قربتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جوازِتقلید نکلتا ہے تو پھر ان چاروں سے زیادہ تقلید کیئے جانے کے مستحق تو رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم ہوئے اور خصوصاََ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ۔ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے
Flag Counter