Maktaba Wahhabi

73 - 154
نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز کے بعد وہ شخص دوبارہ حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ میں حد تک پہنچ چکا ہوں لہٰذا مجھ پر حد قائم کیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس شخص نے کہا کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تیرے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب التوبۃ باب قول تعالیٰ ان الحسنات یذھبن السیئات ۷۰۰۱ الی ۷۰۰۷)۔ امام مسلم نے اس سلسلہ کی سات احادیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔ ان احادیث سے واضح ہوا کہ اس شخص نے اپنے اس گناہ پر نہ صرف انتہائی ندامت کا اظاہر کیا تھا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈر رہا تھا کہ اس نے اپنے اوپر حد قائم کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔ لیکن موصوف نے اس حدیث کا کیا مطلب اخذ کیا ہے؟ ’’کسی غیر عورت سے بوس و کنار کر کے نماز پڑھ کے سب کچھ معاف ہو جاتا ہے‘‘ موصوف نے اس جملہ میں حدیث کے مطلب کو جس طرح بگاڑا ہے اور اپنی اصلی فطرت کو جس طرح ظاہر کیا ہے وہ اس کی عبارت سے عیاں ہے، موصوف آگے لکھتا ہے: کیا آپ اپنی صاحبزادیوں کو اس پر عمل کرنے، کروانے کی ’’اجازت دیتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث گناہوں سے نفرت کا درس دیتی ہے لیکن موصوف نے اس حدیث سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ: ’’چور چوری سے جائے لیکن ہیراپھیر سے نہ جائے‘‘ موصوف کو قرآن و حدیث میں تحریف کرنے اور ہیراپھیری کی ایس لت پڑ گئی ہے کہ وہ کسی جگہ بھی حدیث میں ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتا اور بعض جگہ تو اس کی اصلی فطرت مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح بالکل واضح اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ اب اس عبارت میں موصوف ترغیب دے رہے ہیں کہ ’’اپ اپنی صاحبزادیوں کو اس پر عمل کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘ لگتا ہے کہ یہ موصوف کے دل کی آواز ہے اور یقینا اس نے اس پر کسی حد تک عمل بھی
Flag Counter