Maktaba Wahhabi

177 - 195
٭پھر اس نے اپنی مغفرت کا ذکر کرنے کے بعد اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے بھی ڈرایا ہے اور اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ اچھے عمل کا دارو مدار اچھے خاتمہ پر ہے۔ ٭اسی طرح ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’میری عزت اور میرے جلال کی قسم!میں اپنے بندے پر دو خوف اور دو امن جمع نہیں کر تا۔اگر وہ مجھ سے دنیا میں خوف کھائے تو میں اسے قیامت کے روز امن میں رکھوں گا۔اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے تو میں اسے آخرت کے دن ضرور خوف میں مبتلا کرونگا۔‘‘[رواہ ابن حبان فی صحیحہ وصححہ الألبانی ] ٭ اور جو شخص کتاب وسنت میں غور کرتا ہے وہ ان میں یہ بات بکثرت پاتا ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں جنت کے وعدے فرمائے ہیں وہاں جہنم سے ڈرایا بھی ہے۔اسی لئے اہل السنۃ والجماعۃ کے ہاں ایک جلیل القدر اصول پایا جاتا ہے جو انھوں نے دو عظیم وحیوں (کتاب وسنت ) سے اخذ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بندۂ مومن پر یہ بات لازم ہے کہ اس کا دل خوف اور امید کی درمیانی منزل پر ہو۔اور انھوں نے دل کو پرندے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُس کے بھی دو پر ہوتے ہیں۔ایک پر خوف کا اور دوسرا امید کا۔اور وہ ایک ہی پر کے ذریعے نہیں اڑ سکتا۔لہذا جو شخص خوف کھائے اور امید وار نہ ہو تو وہ یقینا اللہ کی رحمت سے مایوس اور نا امید ہو کر ہلاک ہو جائے گا۔اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿إِنَّہُ لاَ یَیْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّٰہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُونَ﴾[یوسف:۸۷ ] ’’اللہ کی رحمت سے تو صرف کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘
Flag Counter