Maktaba Wahhabi

82 - 105
[’’سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی، ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دو اور جو باقی بچ جائے، وہ تمہارے لیے ہے۔‘‘] امام ترمذی نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ مَا جَائَ فِيْ مِیْرَاثِ البَنَاتِ] [1] [بیٹیوں کی میراث کے متعلق جو کچھ آیا ہے، اس کے متعلق باب] اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے، کہ مسلمان حاکم کی ذمہ داری ہے، کہ اگر کوئی شخص بیٹی کا وراثت میں سے مقرر کردہ حصہ ہڑپ کر جائے، تو وہ اس غاصب سے بیٹی کا حق واپس دلوائے۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ ۲: اللہ تعالیٰ نے وراثت کی تقسیم کے سلسلہ میں اپنے احکامات کی تاکید کے لیے اپنے فرمان کی ابتدا [یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ] سے فرمائی ہے۔ اس بارے میں چار مفسرین کے اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ا: امام زجاج بیان کرتے ہیں: یہاں [یُوْصِیْکُمُ] سے مراد یہ ہے ، کہ اللہ تعالیٰ تم پر فرض کرتے ہیں، کیونکہ ان کی طرف سے وصیت کرنے سے مراد واجب کرنا ہوتا ہے۔[2] ب: قاضی ابوسعود لکھتے ہیں: ’’أَي یَأْمُرُکُمْ وَیَعْہَدُ إِلَیْکُمْ‘‘[3] [یعنی وہ تمہیں حکم دیتے اور یہ تمہارے ذمہ لگاتے ہیں۔] ج: شیخ سعدی تحریر کرتے ہیں: اے گروہِ والدین! تمہاری اولاد تمہارے پاس امانت ہیں، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کی دینی اور دنیاوی مصلحتوں کا نگہبان مقر رکیا ہے۔ پس والدین کے ہاں موجود اولاد کے متعلق وصیت کی جاتی ہے، وہ (اس)وصیت پر
Flag Counter