Maktaba Wahhabi

69 - 105
اولیاء کے رکاوٹ بننے کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قول: اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: جب وہ (یعنی خاتون) کسی شخص سے راضی ہو اور وہ کفو ہو، تو اس کے ولی پر واجب ہے، کہ وہ اس کا اس سے نکاح کروادے۔ اگر اس (ولی) نے اسے (یعنی خاتون کو نکاح سے) روکا یا نکاح کروانے سے (خود) گریز کیا، تو علماء کے متفقہ قول کے مطابق قدرے دور کا ولی یا حاکم اس (یعنی پہلے ولی) کی اجازت کے بغیر اس (خاتون) کا نکاح کروادے گا۔ اسے (اس کی ناپسندیدہ جگہ پر نکاح کرنے پر) مجبور کرنے والے اور (اس کی پسندیدہ جگہ نکاح سے) روکنے والے تو زمانۂ جاہلیت کے طریقے والے ظالم لوگ ہی ہیں، جو کہ اپنی زیرسرپرستی خواتین کا نکاح ایسے لوگوں سے کرواتے ہیں، جن کا انتخاب وہ خاتون کی مصلحت کی بجائے اپنی مصلحت کی بنا پر کرتے ہیں۔ (پھر) وہ اسے (یعنی خاتون کو) مجبور کرتے ہیں یا شرمندہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (اپنی ناپسندیدہ جگہ میں نکاح) کرلے اور وہ (اولیاء) اپنی کسی عداوت یا مصلحت کی بنا پر اس شخص کے ساتھ نکاح سے روکتے ہیں، جو کہ اس (خاتون) کے لیے کفو ہوتا ہے۔ یہ سارا طرزِ عمل زمانہ جاہلیت کا دستور، ظلم اور زیادتی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور اس کی حرمت پر اہل اسلام کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولیاء پر واجب کیا ہوا ہے، کہ وہ اپنی خواہشات کی بجائے (زیرسرپرستی) خاتون کی مصلحت کو پیش نظر رکھیں، جیسے کہ باقی ماندہ دوسرے لوگوں کے اولیاء اور وکلاء ہوتے ہیں۔ ان کا مطمح نظر اپنی خواہشات کی بجائے اپنے موکلین کی مصلحت ہوتا ہے۔ یہ تو وہی امانت ہے، جس کے ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا وَ اِذَا حَکَمْتُم
Flag Counter