Maktaba Wahhabi

94 - 105
فَنَفَقَتُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ وَاجِبَۃٌ عَلَی الْأَزْوَاجِ مِنْ غَیْرِ إِرْضَاعِہِنَّ لِلْأَوْلَادِ۔‘‘[1] [اس میں اس بات کی دلیل ہے، کہ دودھ پلانے والی ماؤں کا خرچہ باپوں کے ذمہ ہے۔ اور یہ بات طلاق یافتہ دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے ہے۔ غیر مطلقہ عورتوں کا خرچہ اور کپڑا، تو بچوں کو دودھ پلائے بغیر بھی خاوندوں کے ذمہ ہے۔] شاید اس مقام پر اسلامی نظام وراثت کے متعلق مشہور فرانسیسی مستشرق ڈاکٹر غوستاف لوبون کی رائے کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’قرآن کے بیان کردہ وراثت کے قوانین میں عظیم عدل و انصاف ہے۔‘[2]2 ایک دوسرے مقام پر تحریر کرتے ہیں: ’’قرآن کے عورت کو عطا کردہ وراثت کے حقوق ہمارے اکثر یورپی قوانین سے اعلیٰ ہیں۔‘‘[3] گفتگو کا حاصل یہ ہے، کہ وراثت میں بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کا دگنا حصہ خرچ کرنے میں بیٹی کی نسبت اس کی ذمہ داریوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ (۱۶) فوائد وقف سے بیٹیوں کو محروم کرنے کا دستورِ جاہلیت ہونا زمانہ جاہلیت کی قباحتوں میں سے ایک یہ تھی، کہ وہ بتوں کے نام وقف کردہ
Flag Counter