Maktaba Wahhabi

78 - 105
ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا بیٹا آیا، تو اس نے اس کو پکڑ کر بوسہ دیا اور اپنی گود میں بٹھالیا۔ پھر اس کی بیٹی آئی، تو اس نے اس کو پکڑ کر اپنے پہلو میں بٹھا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فَمَا عَدَلْتَ بَیْنَہُمَا۔‘‘[1] ’’تم نے ان دونوں کے درمیان عدل نہیں کیا۔‘‘ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹی اور بیٹے کے درمیان بوسہ دینے اور بٹھانے میں تفریق کو خلافِ عدل قرار دے رہے ہیں، تو ہبہ میں ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کی کیونکر اجازت دیں گے؟ اس بارے میں بعض علماء کے اقوال: ا: امام ابن حزم لکھتے ہیں: ’’وَلَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ یَہَبَ وَلَا أَنْ یَتَصَدَّقَ عَلٰی أَحَدٍ مِنْ وَّلَدِہِ إِلَّا حَتَّی یُعْطِیَ أَوْ یَتَصَدَّقَ عَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ بِمِثْلِ ذٰلِکَ۔ وَلَا یَحِلُّ أَنْ یُفَضِّلَ ذَکَرًا عَلٰی أُنْثَی، وَلَا أُنْثَی عَلیٰ ذَکَرٍ۔ فَإِنْ فَعَلَ فَہُوَ مُفْسُوْخٌ مَرْدُوْدٌ أَبَدًا وَلَا بُدُّ۔‘‘[2] [’’کسی کے لیے جائز نہیں، کہ وہ اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو کوئی ہبہ یا صدقہ کرے، مگر اسی کے بقدر ہبہ یا صدقہ ان میں سے ہر ایک کو دے۔ اس کے لیے یہ بھی جائز نہیں، کہ لڑکے کو لڑکی پر، یا لڑکی کو لڑکے پر ترجیح
Flag Counter