Maktaba Wahhabi

48 - 105
[یہ فیصلہ اس بات کو واجب کرتا ہے، کہ دو شیزہ کو (اس کی مرضی کے خلاف جگہ) نکاح کرنے پر مجبور نہ کیا جائے، اور اس کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر نہ کیا جائے۔ یہی جمہور سلف کا قول، ابوحنیفہ اور روایات میں سے ایک کے مطابق احمد کا مذہب ہے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے لیے اس قول کو بطور دین اختیار کرتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسری رائے نہیں رکھتے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ ، امر و نہی، قواعد شریعت اور مصالح امت کے موافق ہے۔‘‘] ضروری تنبیہ: بعض باپ اور ولی دو شیزہ کی مرضی کے خلاف نکاح کرتے وقت کہتے ہیں، کہ: ’’جو رشتہ مل رہا ہے ، وہ بہت ہی مناسب ہے اور بچی ناسمجھ ہے۔ اور ہمارا مقصود صرف بچی کی خیر خواہی ہے۔‘‘ ایسے نکاح کی شرعی حیثیت جاننے کے لیے درج ذیل ثابت شدہ واقعہ پر غور کرنا ان شاء اللہ مفید ہوگا: امام احمد نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور انہوں نے خویلہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے ایک بیٹی چھوڑی۔انہوں نے اپنے بھائی قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کو [اپنی بیٹی کا] نگہبان مقرر کیا۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: وہ دونوں [عثمان اور قدامہ رضی اللہ عنہما ] میرے ماموں ہیں۔میں نے عثمان بن مظعون کی بیٹی کا رشتہ قدامہ بن مظعون سے طلب کیا، تو انہوں
Flag Counter