Maktaba Wahhabi

92 - 105
ہو، اس پر صدقہ و خیرات نہیں کیا جاتا، بلکہ اس پر جیب سے خرچ کیا جاتا ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ الزَّکَاۃِ عَلَی الزَّوْجِ وَالْأَیْتَامِ فِی الْحِجْرِ] [1] [خاوند اور زیرِ تربیت یتیم بچوں کو زکوٰۃ دینے کے متعلق باب] ایک دوسری روایت میں ہے، کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’یَا نَبِيَّ اللّٰہ! إِنَّکَ أمَرْتَ الْیَوْمَ بِالصَّدَقَۃِ، وَکَانَ عِنْدِيْ حُلِيٌّ، فَأَرَدْتُّ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِہَا، فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ أَنَّہ وَوَلَدُہ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَقَّتُ بِہِ عَلَیْہِمْ۔‘‘[2] [’’اے اللہ تعالیٰ کے نبی! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا، میرے پاس زیور ہے، جس کو صدقہ کرنا چاہتی ہوں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ [یعنی میرے شوہر] کا خیال ہے، کہ بلاشبہ جن پر صدقہ کروں گی، وہ اور ان کے لڑکے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صَدَقَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ۔ زَوْجُکِ وَوَلَدُکِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَقْتِ بِہِ عَلَیْہِمْ۔‘‘ [’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔ اس صدقہ کے تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے ان سے زیادہ مستحق ہیں، جن پر تم صدقہ کرو گی۔] خلاصۂ گفتگو یہ ہے، کہ عورت پر اپنی تونگری اور خاوند کی تنگ دستی کے باوجود اپنے خاوند اور اولاد پر خرچ کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں، اسی لیے تو اس کو ان پر صدقہ کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔
Flag Counter