Maktaba Wahhabi

60 - 105
تَزْوِیْجِ الْمَرْأَۃِ عِنْدَ عَدَمِ أَوْلِیَائِہَا أَوْ عَضْلِہِمْ۔ وَبِہِ یَقُوْلُ مَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ وَإِسْحَاقُ وَأَبُوْعُبَیْدٍ وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ ، وَالْأَصْلُ فِیْہِ قَوْلُ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم: ’’فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَہُ۔‘‘[1] ’’ہمارے علم کے مطابق اہل علم میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں، کہ اولیاء کے نہ ہونے یا ان کے (ہٹ دھرمی کی بنا پر) نکاح سے روکنے کی صورت میں حاکم کو خاتون کے نکاح کا اختیار ہوگا۔ (حضرات ائمہ) مالک، شافعی، اسحاق، ابوعبید اور اصحاب رائے کا یہی قول ہے۔ اس بارے میں اساس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس کا ولی نہ ہو، تو سلطان اس کا ولی ہے۔‘‘ اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں: ’’وَأَمَّا مَنْ لَا وَلِيَّ لَہَا، فَإِنْ کَانَ فِيْ الْقَرْیَۃِ أَوِ الْحِلَّۃِ نَائِبُ حَاکِمٍ زَوَّجَہَا ہُوَ، وَأَمِیْرُ الْأَعْرَابِ، وَرَئِیْسُ الْقَرْیَۃِ۔ وَإِذَا کَانَ فِیْہِمْ إِمَامٌ مُطَاعٌ زَوَّجَہَا أَیْضًا بَإِذْنِہَا۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔[2] ’’جس (خاتون) کا ولی نہ ہو، تو بستی یا محلے میں نائب حاکم موجود ہونے کی صورت میں، وہ اس کا نکاح کروادے گا۔ اور (اسی طرح) بدوؤں کا امیر اور بستی کا سربراہ۔ اگر ان میں ایسا حاکم موجود ہو، جس کی اطاعت کی جاتی ہو، تو وہ اس (خاتون) کی اجازت سے اس کا نکاح کروائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ ۲: ولی اور سلطان دونوں کی عدم موجودگی میں عادل شخص کا نکاح کروانا: علامہ ابن قدامہ تحریر کرتے ہیں:
Flag Counter