Maktaba Wahhabi

76 - 105
الْأَوْلَادِ غَیْرُ جَائِزٍ‘‘][1] [عطیات میں اولاد کے درمیان ترجیحی سلوک کو صراحت سے ناجائز قرار دینے والی چھٹی حدیث کا ذکر] امام ابن القیم اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’وَمِنَ الْعَجَبِ أَنْ یُحْمَلَ قَوْلُہُ {اِعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ} عَلٰی غَیْرِ الْوُجُوْبِ، وَھُوَ أَمْرٌ مُطْلَقٌ مُؤَکَّدٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَقَدْ أَخْبَرَ الْآمِرُ بِہٖ أَنَّ خَلَافَہُ جَوْرٌ، وَأَنَّہُ لَا یَصْلُحُ، وَأَنَّہُ لَیْسَ بِحَقٍّ، وَمَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الْبَاطِلُ۔ ھٰذَا، وَالْعَدْلُ وَاجِبٌ فِی کُلِّ حَالٍ۔ فَلَوْ کَانَ الْأَمْرُ بِہٖ مُطْلَقًا لَوَجَبَ حَمْلُہُ عَلَی الْوُجُوْبِ، فَکَیْفَ وَقَدْ اقْتَرَنَ بِہٖ عَشْرَۃُ أَشْیَائَ تُؤَکِّدُ وُجُوْبَہُ، فَتَأَمَّلْہَا فِيْ أَلْفَاظِ الْقِصَّۃِ۔‘‘[2] [’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد [اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو] کا واجب کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لینا باعث تعجب ہے۔ یہ مطلق حکم ہے، جس کی تین مرتبہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کا حکم دینے والے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بتلایا ہے، کہ اس کا الٹ ظلم، نادرست اور ناحق ہے اور حق کے بعد تو باطل ہی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں عدل تو بہرحال واجب ہوتا ہے، اگر اس کا حکم کسی قرینہ کے بغیر (بھی)دیا جائے، تو وہ واجب ہوگا اور جب اس کے ساتھ دس قرائن موجود ہوں، تو پھر اس کی فرضیت کس قدر ہوگی؟ قصہ کے الفاظ میں ان
Flag Counter