Maktaba Wahhabi

57 - 105
شاہ ولی اللہ دہلوی [نکاح میں ولی کی شرط] کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’وَفِيْ اشْتِرَاطِ الْوَلِيِّ فِيْ النِّکَاحِ تَنْوِیْہُ أَمْرِھِمْ، وَاسْتِبْدَادُ النِّسَائِ بِالنِّکَاحِ وَقَاحَہٌ مِنْہُنَّ، مَنْشَؤُھَا قِلَّۃُ الْحَیَائِ، وَاقْتِضَابٌ عَلَی الْأَوْلِیَائِ، وَعَدَمُ اکْتِرَاثٍ لَہُمْ۔ وَأَیْضًا یجب أَنْ یُمَیَّزَ النِّکَاحُ مِنَ السِّفَاحِ بِالتَّشْہِیْرِ، وَأَحَقُّ التَّشْہِیْرِ أَنْ یَحْضُرَہُ أَوْلِیَاؤھا۔‘‘[1] [’’نکاح میں ولی کی شرط ان [یعنی سرپرستوں] کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور عورتوں کا نکاح کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں بے غیرتی ہے، جس کا سبب حیا کی قلت، اولیاء [کے حق] پر دست درازی اور ان سے لاپرواہی برتنا ہے۔ علاوہ ازیں تشہیر کے ذریعہ نکاح کو بدکاری سے ممیز کرنا واجب ہے اور نکاح کی تشہیر میں سب سے زیادہ ضروری بات لڑکی کے اولیاء کا حاضر ہونا ہے۔‘‘] گفتگو کا حاصل یہ ہے، کہ بیٹی کے حقوق میں سے ایک یہ ہے ، کہ کوئی والد یا سرپرست اس کا نکاح کہیں بھی اس کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔ اور اگر وہ ایسا کرے، تو بیٹی شرعی عدالت کے ذریعہ اس نکاح کو ختم کرواسکتی ہے۔ اسی طرح کسی بیٹی کو بھی یہ اختیار نہیں، کہ وہ اپنے والد یا اس کی عدم موجودگی میں سرپرست سے بالا بالا اپنا نکاح کرلے۔ ایسا نکاح باطل ہے۔ شرعی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
Flag Counter