Maktaba Wahhabi

108 - 125
’’ یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا پایا‘‘ یہ آیت عقل،نقل،سانس ہر چیز کے خلاف ہے ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سورج اگر ایک جگہ غروب ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع ہوتا ہے اگر پاکستان میں غروب ہوگیا تو امریکہ میں چمکتا ہو ا موجود ہوتا ہے۔اگرایک مسلمان کو جو قرآن کی اس آیت کا علم نہیں رکھتا یہ بتایا جائے کہ سورج دلدل میں ڈوبتا ہے تو وہ مذاق اڑائے گااور کہنے والے کی عقلی حالت پر شبہ کرے گا۔مگر ہم کیا کریں قرآن میں اس طرح سے موجود ہے اورہمارا اس پر ایمان ہے تو اگر صحیح حدیث میں کچھ اسی طرح آگیا تواسے اسلام دشمن سازش کہہ کر کیوں رد کردیا جاتا ہے ؟ قارئین کرام !ہمیں چاہیے کہ ہم بحیثیت مسلمان اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو من وعن تسلیم کریں کیونکہ یہی ایمان بالغیب ہے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو احادیث کو سانس کی نظر سے دیکھتے ہیں اگرسانس تسلیم کرے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو مانیں گے وگرنہ ردکردیتے ہیں یاد رکھیں سانس کے نظریات میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں وہ کبھی ایک حالت پر نہیں رہتے لیکن اللہ کا قرآن اور اسکے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اپنی جگہ اٹل ہے۔ مشہور نومسلم سانسدان موریس بکائی اپنی مشہور زمانہ کتاب میں رقمطرازہے: سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا جب سورج غروب ہورہا تھا کہ جانتے ہو یہ کہاں جاتا ہے میں نے جواب دیا اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں فرمایا یہ جاکر عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا مگر قبول نہ ہوگا تو اسے کہا جائے گا کہ جہاں سے آئے ہو وہیں لوٹ جاؤ تو وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔([1])اس حدیث کو ڈاکٹر موریس بکائی نے
Flag Counter