Maktaba Wahhabi

104 - 125
اس کے معنی اختلاط یعنی ہمبستری کے کئے ہیں لیکن عربی میں اس کا معنی کچھ اور بنتا ہے اور اردو می باشرت کے الفاظ کچھ اور معنو یں استعمال ہوتا ہے۔ صاحب عون المعبود(شرح سنن ابی داؤد)ذکر فرماتے ہیں کہ: ’’معنی المباشرۃ ھنا المس بالیدمن اللمس ‘‘ ’’ مباشرت سے یہاں صرف ہاتھ سے چھونا اور دو جسموں کا ملنا مراد ہے(نہ کہ جماع)‘‘ مزید وضاحت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ قول ہے۔‘‘ ’’ا ن المباشرۃ فی الأصل التقاء ‘‘ ’’ مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں۔‘‘ لہٰذ ا حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے پاس جوبحالت حیض ہوتیں(اور دوسری حدیث میں روزے کے بھی الفاظ ہیں جسے ڈاکٹر شبیرنے آگے تنقید کا نشانہ بنایا ہے)اٹھتے بیٹھتے تھے اور ہاتھ لگاتے تھے اور پیار بھی کرلیا کرتے تھے(نہ کہ جماع)لہٰذا اب بتائیں یہ کہاں قرآن کے خلاف ہے ؟اگر آپ کہیں کہ اس آیت میں قریب جانے سے منع کیا گیا ہے تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کتنا قریب ؟ اگر آپ کی بات تسلیم بھی کرلی جائے تو معنی یہ ہونگے کہ عورت کو ایسی حالت میں اپنے گھر وں سے نکال دیا جائے۔اس لئے کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے قربت لازمی چیز ہے۔کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں ہرگز نہیں تو حدیث کو ماننے میں کیا اختلاف ہے۔۔۔۔؟؟ خیر خواہی کے نام پر بیالیسواں(42)اعتراض: عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ہمارے بوسے لیا کرتے تھے اور مباشرت کیا کرتے تھے۔ (اسلام کے مجرم صفحہ47) اس حدیث کا جواب گزشتہ اعتراض پر تفصیل سے گزر چکا ہے۔اب تکرار کی ضرورت نہیں۔
Flag Counter