Maktaba Wahhabi

98 - 125
قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ([1]) ’’ یقینا تمہارے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘ لہٰذا قرآن کریم ہمیں زندگی کے ہر شعبہ،ہر لمحہ اور ہر معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو بطور اسوہ اختیار کرنے کا حکم ارشادفرماتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مرحلہ میں امت کی رہنمائی فرماتے تھے اسی لئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو بیان کیا نہ کہ غلط نظریہ سے۔ جہاں تک ڈاکٹر شبیرکا یہ اعتراض کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسی بات نہیں کہہ سکتے تو یاد رکھیں ہر چیز کے دو معانی ہوتے ہیں ایک صحیح اور ایک غلط یہ آپ کے تقویٰ پر منحصر ہے کہ آپ کو نسا مطلب اختیار کرتے ہیں۔مثلاً قرآن کریم میں ارشاد ہے:کہ لوط علیہ السلام اپنی قوم کو اغلام بازی سے روک رہے تھے۔قرآن کریم ذکر کرتا ہے۔ قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ([2]) ’’لوط(علیہ السلام)نے کہا اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو میری بیٹیا وجود ہیں ‘‘ اب بتائیے اس آیت کا صحیح مطلب کیا ہوگا۔۔۔۔۔؟ خیر خواہی کے نام پر اڑتیسواں(38)اعتراض: ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالے میں اپنے دونوں ہاتھ اور منہ دھویا اور پھر اس میں کلی کی پھر ابو موسی رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا اس میں سے کچھ پی لو۔(اسلام کے مجرم صفحہ 45) اس اعتراض کا مفصل جواب گذشتہ اوراق میں گزر چکا ہے۔
Flag Counter