Maktaba Wahhabi

84 - 125
ھذہ ترجم قال لاشیء قال فأرسلھا قال فأرسلھاقال فجعل یکبر([1]) ’’عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک پاگل عورت کو لایا گیا کہ جس نے زنا کیا تھا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مشورہ کرکے اس کے رجم کا حکم دے دیا اسی دوران علی رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گذرہوا تو انہوں نے پوچھا کہ اس کو کیوں پکڑ رکھا ہے تو لوگوں نے کہا کہ اس پاگل عورت نے زنا کیا ہے اور عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق اسے رجم کے لئے لے جارہے ہیں تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کو واپس لے کر چلو اور عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیر المؤمنین کیا آپ کو معلوم نہیں کہ تین لوگ مرفوع القلم ہیں(۱)پاگل جب تک صحیح نہ ہوجائے(۲)سوتا ہوا شخص جب تک بیدارنہ ہوجائے(۳)بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں نہیں ایسا ہی ہے۔پھر علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس عورت کو رجم کیوں کیا جارہا ہے ؟تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چھوڑ دیا اور آپ تکبیر کہہ رہے تھے۔‘‘ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خود کچھ ہوتا دیکھیں اور مخالفت نہ کریں اور پھر خود ہی حدیث کے خلاف عمل کریں یقینا سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک یہ حدیث نہیں پہنچی تھی جس کی وجہ سے آپ غلطی کر بیٹھے۔اور رہی بات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عدل وسخاوت کی تو اس غلطی سے ان اوصاف پر کوئی حرف نہیں آتا۔ قرآن میں ارشاد ہے: وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى([2]) ’’ اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بھٹک گئے ‘‘ اب اگر آدم علیہ السلام کی غلطی اور نافرمانی کے باوجود ان کی قدر منزلت میں کوئی فرق نہیں آسکتا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی ایک صحابی رسول ہیں عشرہ مبشرہ میں سے ہیں قرآن نے ان کی ضمانت دی ہے کہ ’’رضی اللّٰه عنہم ورضوا عنہ‘‘([3])تو ان کی قدر منزلت عدل وسخاوت اپنی جگہ برقرارہے اور رہے گی۔انشاء اللہ۔
Flag Counter