ڈاکٹر شبیرنے یہاں بھی تحقیق سے کام نہیں لیا بلکہ اس حدیث کو تنقید برائے تنقید کے تحت نقل کردیا حالانکہ محدثین اور اصحاب فنون اس روایت کو ضعیف کہہ کر پہلے ہی رد کر چکے ہیں کیونکہ مذکورہ حدیث کی سند میں ایک راوی ہے ’’عبداللہ بن عمیدہ ‘‘ جس کا سماع احنف سے ثابت نہیں اور نہ ہی اس نے احنف کا دور پایا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
لانعلم لہ سماعاً من الأحنف([1])
عصر حاضر کے عظیم محدث علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے([2])دوسری وجہ یہ ہے کہ ’’سماک ‘‘ جو کہ مذکورہ حدیث کا ایک راوی ہے اگر کسی روایت می تفرد ہو تو قابل حجت نہیں اور یہاں سماک متفرد ہے۔
امام نسائی فرماتے ہیں:
کان ربما لقن فاذا انفرد بأصل لم یکن حجۃ([3])
’’یہ بعض اوقات تلقین کرتا تھااور جب اصل روایت می تفرد ہو تو حجت نہیں۔‘‘
اما م ابن العربی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت حاشیہ میں فرماتے ہیں۔یہ روایت اہل کتاب سے ماخوذ ہے ان کی کوئی اصل صحیح نہیں۔([4])
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے اور ضعیف حدیث پر اعتراض فضول ہے۔
خیر خواہی کے نام پر ستر ھواں(17)اعتراض:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر 6سال تھی جب ان سے خلوت کی گئی تو عمر 9سال تھی۔(اسلام کے مجرم صفحہ 31)
|