وقت اچھی حالت اختیار کرنا اور خوشبو لگانا پسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس حالت میں ایک شخص اپنے رب سے مناجات اور فرشتوں کے ساتھ مجلس کرتا ہے۔
جہاں تک زبان کی طہارت کا معاملہ ہے تو قاری قرآن کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ تلاوت کلام سے پہلے تعوذ سے اپنی زبان کو پاک کرے اور بسم اللہ کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرے۔ اسی طرح کلمہ توحید کی نفی واثبات کے ذریعے بھی اپنی زبان کو پاک کرے جیسا کہ ’’لَا إِلٰہَ‘‘ میں ان کی نفی ہے جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے اور ’’إِلَّا اللّٰہُ‘‘ میں اللہ وحدہ لا شریک کی توحید کی اثبات ہے۔اور قاری قرآن جب شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہے تو اپنی زبان سے شیطان کے وہم جیسی ناپاک چیزوں کو دور کرلیتا ہے اور پھر بسم اللہ کے ذریعے اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی زبان کو پاک کرتا ہے۔
طہارت قلب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کرے جبکہ اس کے دل میں غیر اللہ موجود ہو جیسا کہ دکھلاوے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کرنا یا کسی دنیوی مقصد مثلاً کمانے، فخر کرنے، منصب ومقام یا بادشاہوں کے تقرب کے لیے تلاوت کرنا وغیرہ۔
شاید میں نے طہارت کے بیان کو لمبا کر دیا ہے لیکن اس کی وجہ اس کے متنوع مسائل ہیں یا بعض مسائل کا عوام الناس سے اوجھل ہونا ہے۔
۲۔ آواز کو خوبصورت کرنا بھی تلاوت کے آداب میں شامل ہے:
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
((أَجْمَعَ الْعُلَمَائُ رضی اللّٰه عنھم مِنَ السَّلَفِ وَ الْخَلَفِ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَ التَّابِعِیْنَ وَ مَنْ بَعْدَھُمْ مِنْ عُلَمَائِ الْأَمْصَارِ، أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ، عَلَی اسْتِحْبَابِ تَحْسِیْنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْاٰنِ وَأَقْوَالُھُمْ وَ أَفَعَالُھُمْ مَّشْھُوْرَۃٌ نِھَایَۃَ الشُّھْرَۃِ، فَنَحْنُ مُسْتَغْنُوْنَ عَنْ نَقْلِ شِیْئٍ مِّنْ أَفْرَادِھَا، وَ دَلَائِلُ ھٰذَا مِنْ حَدِیْثِ رَسُوْلِ
|