بھی قطعی دلیل ہے کہ ایسے شخص کا اللہ کی رضا کی خاطر قرآن مجید کی تدریس کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ اگر تو اللہ کی رضا اس کا مطلوب ہوتی تو وہ اسے ناپسند نہ جانتا کہ اس کے طلبا دوسرے اساتذہ سے علم حاصل کریں۔ بلکہ وہ اپنے نفس سے یہ کہتا کہ میں نے تو نے اس تعلیم سے اطاعت چاہی اور وہ حاصل ہو گئی اور کسی دوسرے سے علم حاصل کرنے میں طالب علم کا مقصود اپنے علم میں اضافہ تھا لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
۳۔ طلبا کے مابین عدل کرنا:
کسی امیر طالب علم کو محتاج اور فقیر پر یا کسی قوی کو کمزور پر ترجیح نہ دے۔ یا کسی طالب علم سے اگر اسے کسی فائدے یا حاجت کے پورے ہونے کی امید ہوتو اسے دوسروں پر ترجیح نہ دے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جہاں انسان کے قدم پھسل جاتے ہیں اور اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ ہم آگے چل کر اسے مزید بیان کریں گے۔
۴۔بہترین اخلاق کا التزام:
استاذ ان اوصاف حمیدہ کہ جن کا ذکر شریعت اسلامیہ میں آیا ہے، کو اختیار کرے جیسا کہ دنیا سے بے رغبتی یا دنیاوی لذتوں اور دنیا کمانے میں غرق ہونے سے اجتناب کرے۔وہ سخی اور کریم ہو، خوش اخلاق ہو اور بد اخلاق نہ ہو۔ صبر کرنے والا حلیم الطبع ہو اور گھٹیا طریقوں سے کمائی کرنے سے اجتناب کرتا ہو۔ کمائی کے معاملہ میں اسے عام دنیادار افراد کی طرح نظر نہیں آنا چاہیے۔تقوی اور خشوع وخضوع کاحامل ہو۔ اس میں سکینت،وقار، تواضع اور انکساری ہو۔ بہت زیادہ ہنسنے اور مزاح سے پرہیز کرنے والا ہو۔ شرعی تقاضوں کا پورا کرنے والا ہو جیسا کہ میل کچیل اور غیر ضروری بالوں کی صفائی، مونچھوں کی تراش خراش،ناخنوں کا کاٹنا، ڈاڑھی کا چھوڑنا، اپنے منہ اور جسم سے آنے والی بدبو کو دور کرنا،میلے کپڑوں کا نہ پہننا، بھلا نظر آنا، علماء کا طرز زندگی اختیار کرنا، کثرت سے اذکار اور دعاکرنا، ظاہر وباطن میں اللہ کی نظر میں ہونے کا تصور کرنا، ہر قسم کے لہو ولعب سے انتہائی اجتناب کرنا اور گری ہوئی گھٹیا
|