قرآن مجید کی درس وتدریس کے آداب
جس طرح عام درس وتدریس کے آداب ہیں، اسی طرح قرآن مجید کی تعلیم وتعلم کے بھی آداب ہیں کہ جن کا التزام طلباء اور مدرسین دونوں کے لیے لازم ہو۔ ہم پہلے مدرسین کے آداب کا ذکر کریں گے اور اس کے بعد طلبا کے آداب کا بیان ہو گا۔
قرآن مجید کی تدریس کے آداب
۱۔ خالص اللہ کی رضا کا حصول:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاء وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَذَلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ﴾ (البینۃ: ۵)
’’اور انہیں نہیں حکم دیا گیا مگر اس کا کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں، اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اور یکسو ہوتے ہوئے۔ اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور یہی سیدھا دین ہے۔‘‘
اور صحیحین میں اللہ کے رسول سے مروی ہے:
((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَ إِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَّا نَوٰی۔))[1]
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
((وَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مِنْ أُصُوْلِ الْإِسْلَامِ، فَیَنْبَغِیْ أَنْ یَّکُوْنَ عَمَلُہٗ
|