اس کے بعد استاذ بلیک بورڈ پر کچھ ایسے کلمات لکھے کہ جن میں یہ شرط موجود نہ ہو یعنی حرف ِمد کے بعد ہمزہ موجود ہوجیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّا بُرَئَ اؤُا مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ﴾
ایک اور آیت ہے:
﴿وَجَآؤُوْٓا أَبَاہُمْ عِشَآئً یَّبْکُوْنَ﴾
پھر ان دونوں آیات کی تلاوت کرے اور طلباء کو کہے کہ وہ مد ِبدل پر غور کریں تو طلباء کو یہ واضح ہو گا کہ مد ِبدل پہلی آیت میں مد ِمتصل بن گئی ہے اور دوسری آیت میں مد ِمنفصل۔ اس کے بعد استاذ درج ذیل آیات بلیک بورڈ پر لکھے:
﴿وَلَآ آمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ﴾ اور ﴿وَحُسْنَ مَآبٍ﴾
پھر استاذ ان آیات کی تلاوت کرے اور طلباء کومد ِبدل کی طرف متوجہ کرے۔ طلباء کو یہ واضح ہو گا کہ مد ِبدل پہلی مثال میں مد ِلازم میں تبدیل ہو گئی ہے کیونکہ حرف ِمد کے بعد سکون اصلی موجود ہے۔ جبکہ مد ِبدل دوسری آیت میں مد ِعارض میں تبدیل ہو گئی ہے کیونکہ وقف کی وجہ سے حرف ِمد کے بعد عارضی سکون موجود ہے۔
اس کے بعد مدرس قرآن کے مجید کلمات ﴿إِسْرَائِیْلَ﴾ اور ﴿مَسْؤُولاً﴾ لکھے اور طلباء سے یہ معلوم کرے کہ ان کلمات میں حرفِ مد کی اصل کیا ہے؟ طلباء کو یہ معلوم ہو گا کہ یہاں حرف ِمد ہمزہ ساکن کے بدلے میں نہیں آیا۔ طلباء کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ مد ِبدل میں حرف ِمد غالب طور تو ہمزہ ساکن سے بدلا ہوتا ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔
پس اس سے طلباء کو یہ معلوم ہو گا کہ مد ِبدل دو قسم کی ہے:
پہلی قسم: جس میں دوسرے ہمزہ کو پہلے ہمزہ کی حرکت کے موافق حرف ِمد میں تبدیل کیا گیا ہو جیسا کہ ﴿ئَ امَنُوا﴾ اور ﴿أُوتِیَ﴾ اور ﴿إِیمٰنًا﴾ کی مثالیں ہیں۔
دوسری قسم: جس میں حرفِ مد سے پہلے ہمزہ ہو لیکن یہ حرف مد کسی دوسرے ہمزہ ساکن سے بدل نہ ہو جیسا کہ ﴿قُرْئَ انٌ﴾ میں ہے۔
|