Maktaba Wahhabi

513 - 559
بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ ’’ایسے حالات میں ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘[1] ان احادیث کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ عورت اگر کسی غیر محرم سے ملاقات کرنا چاہتی ہے تو اپنے بھائی، باپ، بیٹے یا خاوند کی معیت میں کرے، محرم کے بغیر ملاقات کرنا جائز نہیں۔ شریعت اسلامیہ میں فتنہ و فساد کی روک تھام کے لیے خواتین کو پردے کا حکم دیا ہے تاکہ عورت کے محاسن اور فتنہ خیز اعضاء دوسروں کی آزمائش اور امتحان کا ذریعہ نہ بنیں، جب کہ نابینا انسان کوئی چیز نہیں دیکھ سکتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق عورت نابینا شخص کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہے اگرچہ بہتر ہے کہ وہ ایسے حالات میں بھی بے حجاب نہ ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ نابینا سے پردہ کے متعلق اہل علم کا ایک دوسرا موقف بھی ہے کہ عورت کو ان حضرات سے بھی پردہ کرنا چاہیے، وہ اس سلسلہ میں درج ذیل رواتب پیش کرتے ہیں۔ سیدہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجودتھی اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بھی وہیں تھیں، اس دوران میں سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمیں پردے کے احکام دے دئیے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے پردہ کرو۔‘‘ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا یہ نابینا نہیں ہے؟ ہمیں دیکھتا نہیں اور پہچانتا بھی نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم بھی نابینا ہو؟ کیا تم اسے نہیں دیکھتی ہو۔‘‘[2] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[3] یہ روایت اگر صحیح ہے تو اس کی توجیہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بایں الفاظ کی ہے: ’’سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے پردہ کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف ازواج مطہرات کے لیے خاص تھا، عام مسلمان خواتین کے لیے یہ ضروری نہیں۔‘‘[4] قرآن کریم کی بھی صراحت ہے: ﴿يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ ﴾[5] ’’ازواج مطہرات عام مسلمان خواتین کی طرح نہیں ہیں۔‘‘
Flag Counter