Maktaba Wahhabi

432 - 559
ایسے رشتہ داروں کے ہمراہ سفر کرنا جائز نہیں۔ صورت مسؤلہ میں عورت کے پہلے خاوند کی لڑکی حالیہ خاوند کی ربیبہ ہے جس سے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ رَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ﴾[1] ’’اور (تم پر حرام ہیں) تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم ہم بستری کر چکے ہو، ہاں اگر تم ان سے ہم بستری نہیں کی تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ اس مقام پر قرآن مجید میں ’’ربیبہ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ربیبہ، بیوی کی اس بیٹی کو کہتے ہیں جو پہلے خاوند سے ہو۔ اس کے حرام ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ خاوند اس بیوی سے وظیفہ زوجیت ادا کر چکا ہو، بصورت دیگر صرف نکاح کرنے سے وہ اس پر حرام نہیں ہو گی۔ بہرحال ’’ربیبہ‘‘ محرمات سے ہے اور اس کی ماں کا خاوند، اس کا محرم بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ خاوند نے ربیبہ کی ماں سے ہم بستری کر لی ہو۔ ربیبہ سے نکاح حرام ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی زوجہ محترمہ نے کہا کہ آپ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی جو ابو سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہے، اس سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، تو آپ نے فرمایا تھا: ’’وہ تو میری ربیبہ ہے، اس سے میں کیونکر نکاح کر سکتا ہوں۔ اگر وہ ربیبہ نہ بھی ہوتی تب بھی وہ میرے لیے حرام تھی کیوں کہ اس کے باپ ابو سلمہ کو اور مجھے ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔‘‘[2] چونکہ ربیبہ سے نکاح حرام ہے اور آدمی اپنی ربیبہ کا محرم بن سکتا ہے، اس بناء پر اگر میاں بیوی دونوں عمرہ پر جانا چاہتے ہیں تو ان کے ہمراہ منکوحہ کی بیٹی جو خاوند کی وجہ سے ہے عمرہ پر جا سکتی ہے۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔ واللہ اعلم! منہ بولے بھائی سے پردہ سوال: ہم چھ بہنیں ہیں، ہمارا کوئی بھائی نہیں، والد محترم نے اپنا بھتیجا لے کر اس کی پرورش کی۔ اب وہ جوان ہے، وہ ہمارے ہاں بھائیوں کی طرح رہا، کیا ہمیں اس سے پردہ کرنا ہوگا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم بہنوں کے لیے کیا حکم ہے؟ جواب: عرب معاشرہ میں ہمیں یہ رواج تھا کہ جسے منہ بولا بیٹا بنا لیا جاتا اسے اپنے حقیقی بیٹے کی مانند قرار دیا جاتا تھا، اسے وراثت میں حصہ دیا جاتا تھا اور نقلی باپ کے نام سے ولدیت لکھی جاتی۔ اس رسم کی اصلاح ضروری تھی، چنانچہ اس سلسلہ میں قرآنی آیات نازل ہوئیں تو متعد د مشکلات سامنے آئیں، اس سلسلہ میں ایک واقعہ کتب حدیث میں منقول ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور حضرت سالم رضی اللہ عنہ ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے، جب یہ آیات نازل ہوئیں: ’’ان منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو، اللہ کے ہاں یہی انصاف کی بات ہے۔‘‘[3]
Flag Counter