Maktaba Wahhabi

158 - 559
قرض کو زکوٰۃ کی مد سے منہا کرنا سوال: میں ایک فیکٹری کا مالک ہوں، ماتحت عملہ مجھ سے قرض حسنہ لے لیتا ہے، پھر وہ اسے ادا نہیں کر پاتا، جب میں نے زکوٰۃ ادا کر نا ہوتی ہے، تو زکوٰۃ کی مد میں اس قرض کو منہا کر دیتا ہوں، جبکہ وہ زکوٰۃ کا حق دار بھی ہوتا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب: کسی کو قرض دینا بہت بڑا ثواب ہے، لیکن اگر کوئی مقروض تنگ دست ہے تو اسے ادائیگی تک کے لیے مزید مہلت دینا بھی کار ثواب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے؛ ﴿وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ﴾[1] ’’اگر کوئی تنگی والا ہے تو اسے کشادگی تک مہلت دینی چاہیے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت فضیلت بیان کی ہے، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی کا دوسرے انسان پر حق ہو اور حق لینے والا اسے مہلت دے تو ہر روز کے بدلے اسے صدقہ کا ثواب ملے گا۔‘‘[2] بنی اسرائیل کا ایک مال دار تاجر آدمی لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا، اگر کسی کو تنگ دست دیکھتا تو اپنے خدام سے کہتا کہ اس سے درگزر کرو، شاید اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ہم سے درگزر کرے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرمایا۔[3] اگر مقروض کو قرض معاف کر دیا جائے تو قرآن کریم نے اس کی بہت ترغیب دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[4] ’’اور صدقہ کرو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تمہیں علم ہو۔‘‘ زمانہ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود میں اضافہ ہوتا جاتا، جس سے وہ تھوڑی رقم بھی پہاڑ بن جاتی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اگر کوئی تنگ دست ہے تو اسے کشادگی تک مہلت دی جائے اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دیا جائے تو بہت ہی بہتر ہے۔ جیسا کہ حدیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے: ’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی تکالیف سے نجات دے تو وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اسے قرض معاف کر دے۔‘‘[5] صورت مسؤلہ میں زکوٰۃ کی مد میں قرض معاف کر دینے والی بات ایک سودا بازی ہے اور اپنی رقم نکلوانے کا ایک بہانہ ہے۔ مال دار آدمی نے تو زکوٰۃ کی مد سے اپنا قرض وصول کر لیا ہے، اس نے کون سا مقروض پر احسان کیا ہے۔ پھر زکوٰۃ ایک
Flag Counter